• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں:کس منہ سے تمہیں مبارک دوں؟ سچ پوچھو تو جب تمہاری حلف برداری کی تقریب ٹی وی پر دیکھی تو دِل میرا گرچہ خوش نہ ہوا، لیکن نا خوش بھی نا رہا۔ تم بھی کہو گے یہ کیا عجب بات کہہ دی۔ کیا کروں، اپنا شیوہ ترک نہیں کیا جاتا۔ تمہارے بارے میں نیویارک ٹائمز کا تبصرہ سنا، زبان نہیں جو تعریف کروں، دو منٹ کے کلپ میں تمہاری صدارت کا گویا کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ باقی اخبارات کی کَل کچھ سیدھی ہو گئی ہے لیکن یہ نیویارک ٹائمز تمہارے قابو نہیں آ رہا، کسی طریقے سے اسے لگام ڈالو، تم تو اِس کام کے ماہر ہو، میں فقیر بھلا کیا مشورہ دوں! لیکن دنیا چاہے اب کچھ بھی کہے، تم انقلاب برپا کر کے دوبارہ واشنگٹن کے تخت پر قابو پا چکے ہو۔ اب لوگ حیراں ہوں، دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں، یہ اُن کی چوائس ہے۔ اور حد یہ ہے کہ ایلون مسک اور اِس قماش کے دیگر صاحبانِ ثروت جوق در جوق تمہارے دربار میں حاضری دے رہے ہیں اور حضور کی خدمت میں نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ بھائی، سچ پوچھو تو اِتنی دولت شہنشاہ معظم نے نہیں لُٹائی ہو گی جتنی یہ روساء تم پر لُٹا رہے ہیں، شاید اِسی لیے تم نے نواب مسک کو محکمہ تطہیرِ سرکار کا میر منشی لگا دیا ہے۔ ’’منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید، ناامیدی اُس کی دیکھا چاہیے۔‘‘ صاحب، میں جانتا ہوں اِس شعر کا یہاں موقع نہیں تھا، پر کیا کروں، ہر دوسرے خط میں کسی نہ کسی بہانے یہ شعر لکھتا ہوں، ہر گوپال تفتہ تو اب اِس شعر سے عاجز آ چکے ہیں۔ خیر ،تم کیا جانو یہ سب، ویسے بھی یہ باتیں اب پرانی ہوئیں۔ آج کی بات یہ ہے کہ تمہاری ریپبلکن پارٹی کو دیکھوں تو ہنسی آتی ہے، وہ لوگ جو پہلے تمہاری صدارت کی راہ میں روڑے اٹکا رہے تھے، آج آنکھیں بچھا رہے ہیں۔ اِس کایا کلپ کی داد کا حقدار تمہارے سوا کوئی دوسرا نہیں۔

تمہاری تقریر سنی، اچھی لگی۔ تم نے کہا کہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بناؤ گے، لیکن میاں یہ عظمت گم گشتہ واپس کہاں سے لاؤ گے؟ کیا یہ کسی بازار سے مُول لو گے؟ تمہارے حاسدین کا تو کہنا ہے کہ پہلے امریکہ زیادہ عظیم تھا لیکن تمہارے آنے سے خدا جانے اُس کا کیا حال ہو گا۔ ہاں میں جانتا ہوں کہ ہر بڑے شخص سے لوگ حسد کرتے ہیں، مگر تم اِس کی پروا نہ کرنا۔ ’’حسد سزائے کمال سُخن ہے کیا کیجیے، سِتم بہائے مَتاع ہُنر ہے کیا کہیے۔‘‘ تم بھی کہو گے، عجیب آدمی ہے، بار بار اپنے ہی شعر لکھتا ہے۔ بھائی اب اِس عمر میں دوسروں کے شعر کیسے یاد رکھوں۔ ہاں، تمہاری تقریر کے کچھ ٹکڑے یاد آئے۔ ایک بات تم نے خوب کہی کہ آج کے بعد امریکی انتظامیہ فقط مرد اور عورت کی صِنف کو تسلیم کرے گی اور بھانت بھانت کی خود ساختہ مخلوقات کو تنوع اور شمولیت کے نام پر، جنہیں انگریزی میں Diversity and inclusivity کہتے ہیں، قبول نہیں کرے گی۔ یہ فرنگیوں کی زبان بھی خوب ہے، پتا ہی نہیں لگتا کہ اصل میں کہنا کیا چاہتے ہیں۔ تمہاری اِس صِنفی پالیسی پر لے دے تو بہت ہو گی مگر مجھے معلوم ہے کہ تم ڈٹے رہو گے۔ اور میاں تم تو پہلے دِن سے تنقید کی زد میں ہو۔ مریخ سے لے کر پانامہ تک تم نے امریکہ کی حاکمیت کا جو عندیہ دیا ہے اُس پر ردِعمل آنا شروع ہو گیا ہے مگر اِس سے گھبرانا نہیں، تم غالب کو اپنا دعا گو اور خیر خواہ تصور کرو، ہو سکے تو لگے ہاتھوں اُس وظیفے کا اجرا بھی کر دو جو مجھے انگریز سرکار سے نہیں مل سکا تھا، اِس عنایت کے عوض میں وہ شعر تمہارے نام کر دوں گا جو شہنشاہ معظم کیلئے کہا تھا: ”غالبؔ بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں، دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو۔‘‘میاں! دنیا میں تمہارے خلاف پروپیگنڈا کچھ زیادہ ہی ہے، یہ بات ٹھیک ہے کہ تم نے نام نہاد فسادات کے مقدمے میں نامزد اپنے حمایتیوں کیلئے عام معافی کا اعلان کیا ہے مگر تمہارا پیشرو صدر بائیڈن تو تم سے بھی بازی لے گیا۔ اُس نے اپنی صدارت کے آخری چند گھنٹوں میں ڈاکٹر انتھونی فاؤچی، جنرل مارک ملی اور کیپٹل ہِل فسادات کی کمیٹی کے اراکین کو یوں معاف کیا کہ آئندہ تم بھی انہیں سزا نہ دے سکو۔ اور یہی نہیں بلکہ عالی جناب نے اپنے خاندان کے افراد کو بھی صدارتی اختیار استعمال کر کے معاف فرما دیا۔ میر مہدی کا کہنا ہے کہ یہ عجیب انصاف ہے کہ بغیر کسی الزام کے معافیاں تقسیم کی جارہی ہیں، گویا جرم کا ارتکاب تو ہوا نہیں، مگر معافی پہلے ہی حاضر ہے! ہاں بھئی، تم کرو تو ٹھیک، ہم کریں تو این آر او۔

لو میاں، اِس سارے قِضیے میں ایک ضروری بات تو رہ ہی گئی تھی۔ ویسے تو ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی مگر جب یہ خبر آئی کہ تم واشنگٹن کے تخت پر قابض ہو چکے ہو ۔تب سے یہاں ہاہاکار مچی ہے۔ کہیں شادیانے بجائے جا رہے ہیں تو کہیں پژمردگی چھائی ہے۔ سب کچھ ایک ہنگامے پہ ہی موقوف ہے۔ اور وہ ہنگامہ تم نے مچا رکھا ہے، یار لوگوں کا خیال ہے کہ صدارت کا منصب سنبھالتے ہی تم نے اپنے یار دِلدار کیلئے رہائی کا حکم جاری کرنا ہے۔ میاں جو کرنا ہے کر ڈالو، لیکن ہمیں اِس مخمصے میں سے باہر نکالو، تمہارے لیے کیا مشکل ہے!بس بھائی، اب میں چلتا ہوں، نقاہت کچھ بڑھ گئی ہے، تمہاری صحت تو قابلِ رشک ہے، اپنا حال اچھا نہیں ہے، میری انگلیاں نکمی ہو گئی ہیں، دو سطریں نہیں لکھ پاتا۔ قاصد کے ہاتھ یہ خط بھیج رہا ہوں، ہو سکے تو نواب مسک کو کہہ کر میرا وظیفہ جاری کروا دو، ویسے مجھے معلوم ہے تم کیا لکھو گے جواب میں، لیکن دل کو بھی خوش رکھنا ہے۔

چہار شُنبہ۔ ۲۲ جنوری ۲۰۲۵۔

اپنی مرگ کا طالب، غالب۔

تازہ ترین