وفاقی وزیرِ تعلیم و سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ کردار تعلیمی اسناد سے زیادہ ضروری ہے۔
ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان (ایپسا) کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) میں ’کریکٹر ماسٹری‘ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ میں قوم پرست ہوں، اس لیے قومی زبان میں بات کرنا پسند کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ سماجی انقلاب کے لیے پہلے فکری انقلاب لانا پڑتا ہے، تعلیم کا کام تعلیم کے لیے ہے سند کے لیے نہیں، آج دنیا کی 100 کمپنیوں نے اسناد کی شرط ہی ختم کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی تعلیم حاصل کریں جو اقدار اور اخلاق سکھائے، اقدار اور اخلاق سے عاری تعلیم لالچ اور منافقت ہے، ہم پریشان ہیں کہ ہماری اخلاقی گراوٹ ہو چکی ہے لہٰذا اسے بہتر کرنے لیے ایسی تعلیمی فیکٹریاں بنائیں جو اخلاق پیدا کر سکیں۔
ایسپا اسلام آباد کے صدر ڈاکٹر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ کردار سازی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیے ضروری ہے، طلبہ کو تعلیم اور ٹیکنالوجی کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ان کی کردار سازی بھی ضروری ہے۔
سُپیریئر یونیورسٹی کی چانسلر ڈاکٹر سمیرا رحمٰن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جامعات میں کردار پڑھایا نہیں جا سکتا کیونکہ طلبہ اسکول اور کالج سے ہوتے ہوئے جامعات تک پہنچے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے، جامعات میں تعلیم کے ساتھ کردار سازی بھی کی جا سکتی ہے۔
جرمنی کے ڈپٹی ہیڈ مشن آرنو کرشوف نے کہا کہ جرمنی میں تعلیم مفت دی جاتی ہے جس میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل ڈاکٹر اقبال چوہدری نے کہا کہ تعلیم کے ساتھ تربیت ضروری ہے اچھی تربیت کے بغیر علم کا فائدہ نہیں، نو آبادیات نے تعلیم سے تربیت ختم کی۔
چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار نے کہا کہ اگر جامعات کے سربراہوں کا کردار اچھا ہوگا تو اس کا اثر اساتذہ اور طلبہ پر پڑے گا۔