منافقت اور دھوکے کے ماحول میں بولا جانے والا سچ محض سچ نہیں بلکہ انقلابی عمل ہوتا ہے اور عظیم ناول نگار جارج آرویل قرار دیتے ہیں ’’جو معاشرہ سچائی سے جتنا دور ہو وہ سچ بولنے والے سے اتنی ہی زیادہ نفرت کرتا ہے‘‘۔
اپنے طاقتور سوالات سے پریس کانفرنسوں میں ایک نئی اٹھان پیدا کر دینے والی ممتاز امریکی صحافی ’’ہیلن تھامسن 1920-2013‘‘ جان کینیڈی سے لے کر صدر اوباما تک جنہیں عقیدت سے دیکھا گیا، وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ میں جن کی کرسی ہمیشہ پہلی صف میں مخصوص ہوتی اور صدارتی پریس کانفرنس میں پہلا سوال ہمیشہ ان کی طرف سے کیا جانا روایت تھی، وہ کہا کرتی تھیں ’’کسی بھی معاشرے میں صحافی وہ واحد فرد ہیں جو حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں اور ان کا احتساب کر سکتے ہیں۔ اگر ان سے سوال نہ کئے جائیں تو حکمران بادشاہ بن بیٹھیں۔ حکمرانوں کو ہر سوال کا جواب دینا چاہئے کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے پھر یہ ہمارے نہیں عوام کے سوال ہوتے ہیں‘‘۔
پاکستان میں جاری موجودہ کشمکش فطری ہے جو صحافیوں اور ریاستی اداروں کے درمیان عالمی سطح پر چھڑی ہوئی ہے۔ایک ارتقائی سفر کا حصہ ہے۔ دنیا بھر میں انصاف پسند صحافی اور شہری ریاستی اداروں اور پریشر گروپوں پر تنقید کرتے ہیں، ان کے غلط اقدامات کو بے نقاب کرتے ہیں، تجزیہ اور تحلیل کرتے ہیں۔ اس کوشش میں ان کے میڈیا گروپ ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس عمل کو بدنیتی کے بجائے لاکھوں روحوں کے اندر سے اٹھنے والی اس آواز سے تعبیر کیا جاتا ہے جو ظلم کے خلاف انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔ قوموں، ملکوں، نسلوں، زبانوں، مذاہب اور فرقوں سے ماوراء۔ حب الوطنی اور عصبیت کے روایتی تصورات جو انسانیت کو قطعاً زیب نہیں دیتے درہم برہم ہورہے ہیں۔ محض زندہ رہنے سے زیادہ اعتدال اور انصاف کے راستے پر چلنا اہم خیال کیا جارہا ہے۔ مقتدر قوتیں خود کو سمیٹنے پر آمادہ نہیں لیکن وہ خود کو زیادہ گھرے ہوئے ماحول میں محسوس کر رہی ہیں۔ اس گھیرے کو توڑنے کے لئے وہ انکار و تردید، مخصوص نظریات، گھٹیا حرکتوں اور حب الوطنی کے روایتی مفروضوں کا سہارا لے رہی ہیں۔ انحراف کرنے والوں کو غدار، دشمن کا ایجنٹ اور ہر دیوار کو بزور گرادینے کے اشارے دیئے جارہے ہیں۔ کہیں براہ راست جبر اور کہیں جبری قوانین کے ذریعے اس صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جرأت مند ’’وسل بلوئر‘‘ بریڈ لے میننگ، گئے برس 21 اگست کو امریکی عدالت نے اسے35 سال قید کی سزا سنائی۔ 2009ء میں بریڈلے امریکی فوج میں بحیثیت انٹیلی جنس تجزیہ کار بغداد تعینات ہوا۔ اپنی حکومت کی خفیہ دستاویزات اس کے زیرمطالعہ آئیں تو اس پر انکشاف ہوا کہ حکومت امریکہ بھیانک جنگی جرائم میں ملوث ہے۔ اپنی حکومت کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھانے کے لئے اس نے خفیہ دستاویزات وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے حوالے کردیں۔ یوں بغداد ہوائی حملہ 2007ء، گرنائی ہوائی حملہ2009ء افغانستان، سفارتی کیبلز، عراق وار لوگز اور افغان وار لوگز جیسے سنگین اسکینڈلوں سے دنیا آگاہ ہوئی۔ جس نے امریکہ اور اس کے خفیہ اداروں کو بدنام کرکے رکھ دیا۔ امریکی حکومت نے بریڈلے کو گرفتار کرلیا۔ امریکی عوام کے سامنے معاملہ آیا تو رائے عامہ دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔ کچھ نے اسے غدار اور کچھ نے ہیرو قرار دیا۔ اسے ہیرو سمجھنے والے امریکیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ممتاز صحافی رچرڈ گیئر کہتے ہیں ’’یہ انصاف کا قتل ہے کہ جو بریڈلے میننگ عراق اور افغانستان میں امریکی حکومت کے جرائم کو سامنے لایا اسے جیل میں ڈال دیا گیا جبکہ یہ جرائم انجام دینے والے بُش، ڈک چینی اور رائس وغیرہ کتابیں لکھ کر اور لیکچر دے کر بھاری رقم کمانے میں مصروف ہیں اور آزاد گھومتے ہیں‘‘۔
سزا ملنے کے بعد عدالت میں بریڈلے نے جو بیان پڑھا وہ بہت اہم تھا۔ اس نے کہا ’’مجھے احساس ہوا کہ دشمن سے لڑتے ہوئے ہم انسانیت کھو بیٹھے ہیں۔ ہم نے دانستہ عراق اور افغانستان میں انسانی جانوں کی قدرو قیمت گھٹا دی اور بے گناہ شہریوں کو قتل کیا۔ یہ قتل عام قومی سلامتی کے نام پر خفیہ رپورٹوں میں چھپادیا گیا تاکہ عوامی احتساب سے بچا جاسکے‘‘۔بیرونی دشمنوں سے لڑتے ہوئے ہی نہیں بلکہ اندرون ملک مختلف افکار، تحریکوں اور نظام کے باغیوں سے نبردآزما ہوتے ہوئے بھی ادارے اپنے عمل کے اعتبار سے غیر انسانی بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یا تو سمجھنے میں غلطی ہوتی ہے یا پھر کچھ ذمہ دار افراد کی بدنیتی کو دخل ہوتا ہے۔ ان افراد پر تنقید یا ان کی ماورائے انسانیت سرگرمیوں کی نشاندہی اداروں پر تنقید نہیں ہوتی اور نہ ہی اداروں کو کمزور کرتی ہے بلکہ انہیں مزید بہتر اور مضبوط بناتی ہے۔ ٹم وینر کی کتاب ’’سی آئی اے، لیگیسی آف دی ایشز‘‘ کی مثال دی جاتی ہے جو دنیا کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی کی انسانیت سوز کارروائیوں کے بارے میں لکھی گئی۔ آئے دن امریکہ اور یورپ میں ایسی کتابیں، مضامین اور پروگرامز سامنے آتے رہتے ہیں جن کے بطن سے جنم لینے والی بحث نقصان کے بجائے اصلاحات کا باعث بنتی ہے۔یہ عالمگیریت کا عہد ہے۔ انسانی فکر و نظر کی کوئی سرحد نہیں۔ اب کوئی معاملہ مقامی نہیں رہا بلکہ ہر معاملہ عالمی معاملہ بن چکا ہے۔ ستم زدہ لوگوں میں روزافزوں بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے۔ اندرونی طاقتیں ہوں یا بیرونی وہ ظلم کی ہر شکل سے نفرت کرتے ہیں اور اس سے معرکہ آراء ہیں۔ آزاد میڈیا، سول سوسائٹی اور عالمی اداروں کے تال میل نے جو کیفیت پیدا کردی ہے وہ ماضی سے اپنی بنیادوں میں مختلف ہے۔ دنیا بھر میں افراد اپنے ہی ملک میں ہونے والی ماورائے قانون اور ماورائے انسانیت کارروائیوں کو سامنے لارہے ہیں، خفیہ اداروں کے غلط اقدامات کو بے نقاب کررہے ہیں اور بے اعتدالیوں کی نشاندہی کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ معرکہ آرائی جاری ہے۔ اسے آپ رد کر سکتے ہیں لیکن ملک دشمن قرار دے سکتے ہیں اور نہ روک سکتے ہیں۔دنیا بھر میں صحافیوں کی ایک طویل قطار ہے جو ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کا نشانہ بنے۔ ان کی جرأت مندی کے باعث اب یہ ممکن نہیں رہا کہ محروم اور تحقیر کئے گئے انسانوں کی درد بھری فریاد نہ سنی جائے لیکن معاشرہ میں نظم اور قانون کی حکمرانی نہ ہو تو یہ خصوصیات خطرے کی زد پر رہتی ہیں۔ ریاست کا مقصد لوگوں کی جان اور مال اور آزادی کے محفوظ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں اگر ریاست ان حدود میں مداخلت کرتی ہے تو ریاست کے انتشار میں اضافہ اور اداروں کی بدنامی ہوتی ہے۔ عہد جدید میں یہ رائے تقویت پارہی ہے کہ اداروں کو اپنی ہیبت قائم کرنے کے بجائے مکالمے اور بحث سے رائے عامہ کو ہموار کرنا چاہئے۔ طاقت کے استعمال کے بجائے اپنے سافٹ امیج کو سامنے لانا چاہئے۔ طاقت کی معروضات تبدیل ہو رہی ہیں۔ سوالات ہیں جو کئے جارہے ہیں ان کے جوابات آنے چاہئیں۔ پاؤں میں پڑی زنجیر کو سماج اور ریاستی ادارے مل کرہی کاٹ سکتے ہیں۔