کئی برسوں سے اپنے آبائی شہر ریاست مالیر کوٹلہ (پنجاب) جہاں میں نے جنم لیا، (جو اب ضلع بن چکا ہے) کی جدید و قدیم تاریخ اور اپنی آپ بیتی پر کام کرنے کا سوچ رہا تھا۔ بہت سا مواد اکٹھا ہونے کے باوجود تسلی نہ تھی۔ خواہش تھی کہ ایک مرتبہ انڈیا کا ویزا مل جائے۔ وہاں جاؤں، اپنوں سے ملوں اور وہاں سیرو تفریح کے ساتھ ساتھ نئی پرانی تاریخ کے اوراق اکٹھے کروں۔ خیر ویزا مل گیا اور چوتالیس سال بعد اپنے بچے کھچے خاندان سے ملا۔ دوست احباب اور اپنے کلاس فیلو سے ملا۔ وہاں کے گلی،محلے، مزارات تاریخی عمارات اور اپنے ہم عمر پیڑوں سے باتیں کیں انہوں نے اپنی داستان سنائی۔ مشرقی پنجاب کے شہر مالیر کوٹلہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کی بنیاد ایک عظیم صوفی درویش حضرت شیخ صدر الدین ’’صدر جہاں‘‘ کے ہاتھوں پڑی۔ جنہیں لوگ حضرت شیخ یا حدر شیخ کے نام سے جانتے ہیں ان کی پیدائش 1434ء میں افغانستان کے علاقہ ’’دربند‘‘ میں ہوئی۔ بابا جی کی شادی بادشاہ بہلول لودھی کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ حضرت صدر الدین کی اولاد نے کئی سو سال ریاست مالیر کوٹلہ پر حکمرانی کی۔ اس ریاست کے آخری حکمران نواب افتخار علی خان (وفات-19 نومبر 1982ء) تھے۔ انہوں نے چار شادیاں کیں۔ مگر اولاد کسی بیوی سے نہ ہوئی اور وہ دنیا سے بے نام و نشان چلے گئے۔ ان کی چوتھی بیوی ساجدہ بیگم تھی، جو ان پڑھ تھی۔ مگر تین دہائیاں مالیر کوٹلہ کی ایم ایل اے رہیں۔ اب نواب صاحب کی تمام بیگمات انتقال کر چکی ہیں۔اگر ان کی اولاد ہوتی تو آج مالیر کوٹلہ کی یہ حالت نہ ہوتی، جو میں دیکھ کر آیا ہوں۔ شاہی خاندان سے جڑی تمام شاہی عمارتیں اور باغات اجڑ چکے ہیں۔ جہاں سارا دن پرندوں کی چہچہاہٹ اور کوئل کی کْوکْو اور مور رقص کرتے نظر آتے تھے۔ آج وہاںہو کا عالم ہے۔ راجے کا باغ اور پیڑ آخری سسکیاں لے رہے ہیں۔ میں نے 55 سال قبل اس کا عروج دیکھا تھا۔ اب زوال دیکھ کر آیا ہوں۔ اس باغ کی عمارت میں ساجدہ بیگم نے اپنے آخری دن گزارے۔ ان کے زیر استعمال ویل چیئر خستہ حال برآمدے میں پڑی ہے۔ چھتیں گر چکی ہیں۔ شاہی قالین مٹی اَٹے ہیں۔ دیواریں ماضی کو یاد کرتے ہوئے ماتم کناں ہیں۔ یہی حال شیش محل کا ہے۔ اس کا مین دروازہ اپنا وجود کھو بیٹھا ہے۔ اندر ساری عمارت کھنڈر بنتی جا رہی ہے۔ جہاں ہر وقت نواب صاحب اور انکی بیگمات کی خدمت کیلئے نوکر، چاکروں کی چہل پہل رہتی تھی۔ شیش محل کا دربار ہال خستہ حالی کی وجہ سے اپنی چھت گنوا بیٹھا ہے۔ اندر جڑی بوٹیاں اْگ آئی ہیں۔ ویران عمارت حالات کی ستم ظریفی پر نوحہ کناں ہے۔ دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں رہا۔ ساجدہ بیگم نے اپنی زندگی میں گزر اوقات کیلئے کچھ حصہ بیچ دیا تھا۔ شیش محل کے عقبی حصے میں جنگلی جھاڑیوں کا بسیرا ہے۔ یہ سارا حصہ جنگل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بڑے بڑے قیمتی اور تاریخی دروازے اپنے مکینوں کو الوداع کہہ چکے ہیں۔ یہ بھی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ رنگ برنگے شیشے مدھم ہو چکے ہیں۔ مالیر کوٹلہ میں میرے قیام کے دوران پنجاب کے ایک ٹی وی چینل نے میرا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس میں بھی میں نے مالیر کوٹلہ کی پرانی اور نئی یادوں کو دہرایا۔ یہ انٹرویو میں نے بڑے قبرستان جسے بیریاں والا قبرستان بھی کہتے ہیں وہاں ایک بیری کے درخت کے نیچے ریکارڈ کروایا۔ جہاں میرے پرانے دوست برگد کے تاریخی درخت کھڑے ہیں۔ ان درختوں کی چھاؤں میں میرا بچپن گزرا ہے۔ ہندو، مسلم ، سکھ اتحاد ہونے کی وجہ سے یہ ریاست 1947ء کے فسادات میں بالکل پرامن رہی۔ یہاں ایک قطرہ بھی خون کا نہیں بہا۔ یہ سب کچھ نواب صاحب کی تمام مذاہب کے ساتھ محبت کا ثبوت تھا یہ اتحاد آج بھی قائم ہے۔ کل کا مالیر کوٹلہ اور آج کا مالیر کوٹلہ میںکافی فرق آیا ہے۔ اب یہاں کی گلیاں، محلے اور سڑکیں پختہ ہو چکی ہیں۔ کچے مکان پکے بن گئے۔ گھر نئی کوٹھیوں میں تبدیل ہو گئے۔ میرے محلے کے سارے پرانے مکین رخصت ہو چکے ہیں۔ اب ان کی جگہ نئے مکینوں نے لے لی ہے۔ مکان وہیں رہتے ہیں۔ مکین ہجرت کر جاتے ہیں۔ مکان ہجرت نہیں کرتے جانے والوں کی یادوں کو سمیٹے اپنی عمر بتا دیتے ہیں۔ پچپن سال پہلے جو شہر چھوڑ کر آیا تھا اب وہ نہیں رہا۔ آج کے ترقی یافتہ مالیر کوٹلہ سے مجھے پہلے والا اچھا لگتا تھا۔ پرسکون، ٹھنڈی سڑک آلودگی اور شور شرابے کی وجہ سے گرم سڑک بن چکی ہے۔ اس کے دونوں طرف جامن کے پیڑ تھے اور سایہ دار درخت۔ پرانے پیڑ مر چکے ہیں کچھ سڑک کی توسیع میں انتظامیہ کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ شہر کی رونق لوگوں کی تفریح کا ذریعہ کمل سینما کوبھی مسمار کر دیا گیا ہے یہاں دکانیں اور مکان بن گئے ہیں۔ نواب آف مالیر کوٹلہ کے خاندان کے کچھ افراد تقسیم ہند کے بعد ماڈل ٹاؤن لاہور میں مقیم ہو گئے تھے۔ شہر کے تاریخی تمام دروازوں کو ازسرنو تعمیر کیا گیا ہے۔ پنجاب اردو اکیڈمی مالیر کوٹلہ میں علامہ اقبال لائبریری بنائی گئی ہے۔ یہاں اقبال پر لکھی گئی تقریباً ساری کتب موجود ہیں۔ مالیر کوٹلہ کے ایک نہایت ذی علم اور نامور نواب سر ذوالفقار علی خان مرحوم حضرت علامہ کے گہرے دوستوں میں تھے۔ علامہ محمد اقبال کے خسر ڈاکٹر شیخ عطا محمد یکم دسمبر 1912ء میں سول سرجن میانوالی کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد ریاست مالیر کوٹلہ کے چیف میڈیکل ہو کر یہاں آئے۔ علامہ اقبال اس عرصہ میں اکثر مالیر کوٹلہ آتے رہے۔ نواب سر ذوالفقار علی خاں کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے 1922ء میں انگریزی خواں طبقہ سے علامہ اقبال کو متعارف کرانے کیلئے سب سے پہلی کتاب A VOICE FROM EAST لکھی۔ اس کتاب کی بدولت حکومت انگلیشیہ حضرت علامہ سے واقف ہوئی اور 1923ء میں حضرت علامہ اقبال کے علمی و ادبی کارناموں سے متاثر ہو کر سر کا خطاب عطا کیا۔