• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں رائج موجودہ معاشی نظام کے تحت کسی بھی ملک کے پاس زرمبادلہ حاصل کرنےکے دو بڑے ذرائع برآمدات اور ترسیلات زر ہیں۔ پاکستان میں بھی حکومت کا زیادہ تر انحصار انہی دو ذرائع سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ پر ہے۔ اس حوالے سے اگر گزشتہ چند سال کے اعدادو شمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ ہماری برآمدات اور ترسیلات زر کا حجم کم و بیش برابر ہے اور بعض اوقات تو یہ بھی ہوا ہے کہ برآمدات کے مقابلے میں ترسیلات زر کا حجم نمایاں طور پر زیادہ رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے حال ہی میں جاری کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق دسمبر 2024ءمیں بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائی جانیوالی ترسیلات زر کا حجم تین ارب ڈالر سے زائد رہا ہے۔ ان میں 25فیصد ترسیلات زر سعودی عرب، 21 فیصد متحدہ عرب امارات، 15 فیصد برطانیہ، 12فیصد یورپ ،10 فیصد جی سی سی ممالک، 9 فیصد امریکہ اور 9 فیصد ترسیلات زر دیگر ممالک سے موصول ہوئیں جن میں آسٹریلیا اور کینیڈا نمایاں ہیں۔ اس طرح دسمبر میں موصول ہونے والی ترسیلات زر گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 29 فیصد اور گزشتہ مہینے یعنی نومبر کے مقابلے میں 5.6 فیصد زیادہ ہیں۔ علاوہ ازیں رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ترسیلات زر کا مجموعی حجم 17.8 ارب ڈالر رہا جوگزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران موصول ہونیوالے 13.4 ارب ڈالر کے مقابلے میں 32.8فیصد زیادہ ہے۔ ترسیلات زر میں ہونیوالے اس اضافے میں گزشتہ دو سال کے دوران حکومت اور پاک فوج کی طرف سے غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی تجارت اورا سمگلنگ کی روک تھام کیلئے کئے جانے والے اقدامات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام اور افراط زر میں کمی بھی ترسیلات زر میں اضافے کی بڑی وجہ ہے جسکے باعث رواں سال ترسیلات زر کا حجم 35 ارب ڈالر تک جانے کی امید ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال کے آغاز پر سرکاری اور نجی شعبے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں نمایاں فرق کی وجہ سے بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر میں بہت زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس وجہ سے نہ صرف حکومت کو معاشی دبائو کا سامنا تھا بلکہ عام مارکیٹ میں بھی افراط زر کی وجہ سے شہریوں کو ریکارڈ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ملک کے معاشی نظام میں ترسیلات زر کی اہمیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی بھی ملک کے معاشی استحکام کیلئے اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ برآمدات کا شعبہ۔ تاہم اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں بالخصوص مشرق وسطیٰ جانے والے کارکنوں کو کبھی وہ اہمیت حاصل نہیں ہو سکی جس کے وہ مستحق ہیں۔ انہیں بیرون ملک موجود سفارتخانوں کی جانب سے خدمات کی فراہمی سے متعلق ہمیشہ مشکلات کا سامنا رہا ہے جبکہ پاکستان آمد کے موقع پر بھی انہیں مختلف سرکاری محکموں کی جانب سے معاونت فراہم کرنے کی بجائے مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اوورسیز پاکستانی جو برطانیہ، یورپ، امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بہتر پیشوں یا کاروبار سے وابستہ ہیں اور وہاں کی شہریت بھی حاصل کر چکے ہیں انہیں بھی کبھی پاکستان کی حکومتوں نے ملک کی ترقی کیلئے متحرک کرنے کا نہیں سوچا ۔ بیرون ملک مقیم زیادہ تر پاکستانی بھی سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہیں جس کی وجہ سے بیرون ملک پاکستان کا امیج متاثر ہو رہا ہے اور ان کی باہمی سیاسی کھینچا تانی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب پاکستان کے قومی مفادات اور خارجہ پالیسی بھی اس سے متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم اپنے ہمسایہ ملک بھارت کی مثال دیکھیں تو اس کے شہری بیرون ملک اس طرح کی تقسیم سے مبرا ہیں۔ وہ نہ صرف بیرون ملک مقیم اپنی کمیونٹی کی ترقی اور حقوق کے تحفظ میں یکسو ہیں بلکہ وہ جس بھی شعبے میں اہم عہدوں پر موجود ہیں وہاں بیٹھ کر اپنے ملک کی بہتری اور بھلائی کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ماضی میں اگر کسی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے کوئی اسکیم شروع بھی کی تو اس پر موثر طریقےسے عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ علاوہ ازیں جن اوورسیز پاکستانیوں نے اس طرح کی اسکیموں میں سرمایہ کاری کی یا بیرون ملک سے پاکستان میں کوئی پراپرٹی خریدنے یا کسی کاروبار میں سرمایہ کاری کیلئے ترسیلات زر بھیجیں تو اس پر بھی سرکاری محکموں کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جبکہ ہمارا بینکنگ نظام بھی انہیں معاونت فراہم کرنے کی بجائے حوصلہ شکنی کا باعث بن رہا ہے۔ اس حوالے سے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اکائونٹ ہولڈرز کو سرمایہ کاری پر دیئے جانے والے منافعے کی شرح میں نمایاں کمی کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں کمرشل بینکوں کی طرف سے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ ہولڈرز کو خدمات کی فراہمی کا معیار بھی انتہائی ناقص ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بیٹھ کر بیرون ملک خدمات فراہم کرنے والے فری لانسرز کو بھی اپنی ترسیلات زر کے حصول میں مختلف رکاوٹوں اور مسائل کا سامنا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ترسیلات زر کے حصول میں درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر کام کرنے والے اداروں کو پاکستان لایا جائے تاکہ ترسیلات زر کی فوری اور جلد از جلد منتقلی کا عمل یقینی بنایا جا سکے۔ اس طرح ترسیلات زر میں اضافہ کرکے پاکستان کا عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین