• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیل کا فلسطینی حکام کے ساتھ ’’جنگ بندی‘‘ کا امن معاہدہ ہوگیا ہے اورغزہ میں مظلوم فلسطینیوں کے سولہ ماہ سے جاری قتل عام کا سلسلہ وقتی طور پر تھم گیا ہے۔ ایک مشاہدے کے مطابق لگ نہیں رہا کہ فلسطینیوں کو امن نصیب ہو گا۔ اسے ایک مختصر وقفہ کہا جا سکتا ہےکہ مظلوم پھر ظلم سہنے کیلئے تھوڑا سا سستا لیں۔ خود کو اسرائیلی فوج کی شرم ناک شکست کا ذمہ دار قرار دینے والے بعض اعلیٰ افسران نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ کئی اہم سرکردہ وزیر اس معاہدے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے کابینہ چھوڑ گئے ہیں۔ متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں تاہم ایک انتہا پسند صہیونی طبقہ اس اسرائیلی جنگ بندی کو اب بھی ایک عارضی قدم قرار دیتاہے یہ لوگ فلسطینیوں کے مکمل قتل عام اور انہیں اس ارضِ مقدس سے بے وطن کرنے اور عظیم تر اسرائیل کے شیطانی خاکے میں رنگ بھرنے کا ببانگ دہل اعلان کہہ رہے ہیں۔ دوسری مدت کیلئے برسرِ اقتدار آنے والے امریکی صدر ٹرمپ کی بھی دلی ہمدردیاں جارح اسرائیل کے ساتھ ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ امریکی صدر اسرائیل کی بقا کیلئے کسی بھی حد کو پار کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم بڑھتے ہی جارہے ہیں اور کوئی اس ناجائز اور بدمعاش صہیونی ریاست کی کلائی مروڑنے کی جرأت نہیں کر پا رہا۔ اسلامی ممالک کا تو حال یہ ہے کہ وہ ’’شتر مرغ کی طرح ریت میںسر دبائے بیٹھے ہیں‘‘ جبکہ ہم جیسے عالمِ اسلام کا ’’تارا‘‘ سمجھے جانے والے بھی اپنے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اس پالیسی بیان کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں جس میں انہوں نے اس ریاست کو ناجائز کہا تھا۔

کہا جاسکتا ہے کہ عالمی امن کو داؤ پر لگانے اور عالمی اداروں کی بے توقیری میں اضافہ کرنے والا امریکہ اور اس کا ہم رکاب اسرائیل دنیا میں کہیں بھی سکھ اور چین نہیں چاہتے۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات میں اگر کوئی ملک رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بری طرح ناکام بنا دیا جاتا ہے، یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں موجود اسرائیلی طرز کا ایک ملک انڈیا بھی کشمیریوں کی زندگیاں جہنم بنائے ہوئے ہے اور اسکے ساتھ ہی پاکستان پر بھی کئی بار مسلح جارحیت کر چکا ہے اور اقوامِ متحدہ کی کسی قرار داد کا اس پر بھی اثر نہیں ہوتا۔ شام کو بھی جہنم بنائے رکھنے والے بشار الاسد کی پشت پر انہی جارح ممالک کا ہاتھ تھا۔ امریکہ کو آنکھیں دکھانے والے یمن کا بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور اسکی مزاحمت کو توڑنے کی پوری کوششیں جاری ہیں۔ جو بھی اسلامی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے اسے کمزور کرکے وہاں اپنی من پسند حکومتیں بنا دی جاتی ہیں۔ کب تک یہ کھیل جاری رہے گا، کیا دنیا کسی نئی عالمگیر جنگ کی چاپ سن رہی ہے؟

حلف برداری کے موقع پر جب امریکی صدر ٹرمپ سے غزہ کے متعلق سوال کیا گیا کہ ’’کیا انہیں یقین ہے کہ وہ غزہ میں فائر بندی برقرار رکھ سکتے ہیں اور معاہدے کے تین مراحل مکمل کر سکتے ہیں؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’مجھے یقین نہیں ہے۔‘‘صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’انہوں نے غزہ کی تصویر دیکھی ہے اور یہ ایک بہت بڑی منہدم جگہ کی طرح ہے اور اسے بالکل مختلف طریقے سے دوبارہ تعمیر کرنا ہو گا۔‘‘ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ معاہدوں اور پابندیوں کو اسرائیل خاطر میں نہیں لائے گا کیونکہ دونوں کی فطرت ایک جیسی ہے جسے بدلا نہیں جا سکتا۔ امریکہ کی تاریخ جنگ و جدل سے عبارت نظر آتی ہے اور اسرائیل نصف صدی سے عظیم تر اسرائیل کی خاطر فلسطینیوں کا خون بہا رہا ہے، ایسے میں بہتری اور امن کا صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بعد عالمی نشریاتی اداروں پر دکھائے جانے والے مناظر اس بات کے غماز ہیں کہ رہائی پانے والے خوش ہیں، ایک طرف غزہ پانچ لاکھ عمارتوں کے ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور دوسری طرف اسرائیل میں روشنیوں کی چکا چوند دیکھ کر ہر شخص بخوبی ادراک کر سکتا ہے کہ بقاکی جنگ کون لڑ رہا ہے اور تباہ حالی کا شکار کون ہے۔ ظلم کس پر ہوا ہے اور مظلوم کون ہے؟ قطع نظر اس کے کہا جا سکتا ہے کہ اب اسرائیل کیلئے میدان صاف ہے، اسے جارحیت کیلئے جب تک امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اسے نہیں روکا جاسکے گا کیونکہ صدر ٹرمپ اس امن معاہدے کے حوالے سے بے یقینی کا اظہار کر چکے ہیں۔ بات صاف ہے کہ جب تک اسرائیل اور امریکہ امن کی خاطر قدم نہیں اٹھائیں گے مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر میں امن کو خطرات ہی لاحق رہیں گے۔

جنگ کا شُور بھی کچھ دیر تُو تھم سکتا ہے

پھر سے اِک اُمن کی افواہ اُڑا دی جائے

تازہ ترین