• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کسی پاکستانی سے پوچھا جائے کہ مارشل لاء کیا ہوتا ہے؟ وہ فوراً بتائے گا کہ جب فوج اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے تو اس قبضے کو مارشل لاء کہتے ہیں۔ اگر کسی امریکی سے پوچھا جائے کہ مارشل لاء کیا ہوتا ہے تو وہ بتائے گا کہ جب خانہ جنگی یاامن و امان کی خراب صورتحال کے باعث کسی ریاست یا شہر کا انتظام مخصوص مدت کیلئے فوج کے سپرد کیا جائے تو اس وقتی بندوبست کو مارشل لاء کہتے ہیں۔ پاکستان میں چار مرتبہ فوج اقتدار پر براہ راست قبضہ کر چکی ہے اور چار فوجی ڈکٹیٹر مجموعی طور پر 33سال تک پاکستان پر حکومت کر چکے ہیں۔ امریکہ میں اب تک 68مرتبہ مارشل لاء نافذ کیا جا چکا ہے لیکن امریکہ میں فوج سیاسی حکومت کیخلاف بغاوت کر کے اقتدار پر قبضہ نہیں کرتی بلکہ کسی ریاست کا گورنر یا امریکہ کا صدر ایمرجنسی میں فوج کو خرابی ختم کرنے کا حکم دیتا ہے اور فوج خرابی ختم کر کے واپس چلی جاتی ہے۔ مثلا~1862ء میں امریکی صدر ابراہم لنکن نے خانہ جنگی کے باعث مارشل لاء نافذ کیا جس کے دوران شخصی آزادیاں معطل ہو گئیں اور فوجی عدالتیں قائم کر دی گئیں۔ مارشل لاء کے نفاذ کے حکم نامے کو سینٹ اور کانگریس سے منظوری ملی اور یہ بندوبست چار سال تک قائم رہا۔ 1941ء میں امریکی صدر روز ویلٹ نے پرل ہاربر پر جاپان کے حملے کے بعد ریاست ہوائی میں مارشل لاء نافذ کیا جو 2سال اور دس ماہ کے بعد ختم کر دیا گیا۔ امریکہ میں 68مرتبہ مارشل لاء کے نفاد کے باوجود مار شل لاء کا لفظ گالی نہیں بنا کیونکہ امریکی صدر یا کسی ریاست کا گورنر حالات سدھارنے کیلئے فوج کو بلاتا رہا اور فوج نے ایک مرتبہ بھی اقتدار پر قبضہ کر کے کسی منتخب صدر کو جیل میں نہیں ڈالا۔ پاکستان میں مارشل لاء کا پہلا تجربہ 1953ء میں کیا گیا جب لاہور میں ختم نبوت کی تحریک کے دوران فسادات پھوٹ پڑے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے ان فسادات کو روکنے کیلئے لاہور میں مارشل لاء لگادیا اور فوجی عدالتیں قائم کر دیں۔ ان فوجی عدالتوں نے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت سنا دی۔ یہ مارشل لاء صرف دو ماہ کے بعد ختم کر دیا گیا اور فوجی عدالتوں کی طرف سے دی جانے والی سخت سزائیں بھی منسوخ ہوگئیں لیکن فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے مارشل لاء لگانے کا موقع تلاش کرنا شروع کردیا۔ 1958ء میں انہوں نے گورنر جنرل اسکندر مرزا کے ساتھ مل کر مارشل لاء لگایا اور کچھ دنوں کے بعد اپنے اس سہولت کار کو گرفتار کر کے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا۔ جنرل ایوب خان نے گیارہ سال حکومت کی اور اپنے آپ کو فیلڈ مارشل بھی ڈیکلیئر کر دیا۔ انہوں نے اپنے ایک من پسند فوجی افسر جنرل یحییٰ خان کو آرمی چیف بنایا اور خود صرف ملک چلانے پر توجہ دینے لگے۔ جنرل یحییٰ خان نے اختیارات ملتے ہی اپنے باس ایوب خان کے ساتھ وہی کچھ کیا جو ایوب خان نے اسکندر مرزا کے ساتھ کیا تھا۔

پاکستان میں فوج نے ہمیشہ وسیع تر ملکی مفاد کے نام پر اقتدار سنبھالا اور فوجی جرنیلوں کی ہوسِ اقتدار نے ملکی مفاد کو ہمیشہ نقصان پہنچایا۔ فوجی ڈکٹیٹر کو جب گلی محلوں میں برا بھلا کہا جانے لگے تو اس کا دبدبہ ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لئے جنرل یحییٰ خان نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو چٹکی بجاتے میں فارغ کر دیا۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے تیسرا مارشل لاء لگایا اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ سے پھانسی دلوائی۔ جنرل ضیاء کی حکومت کا خاتمہ ایک ہوائی حادثے کا نتیجہ تھا۔ 1999ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹا کر جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنایا تو فوجی جرنیلوں نے بغاوت کر دی اور نواز شریف کو وزیر اعظم ہائوس میں گھس کر گرفتار کر لیا۔ نواز شریف پر آرمی چیف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا گیا لیکن کچھ عرصے کے بعد انہیں کچھ غیر ملکی دوستوں کی مداخلت پر جیل سے نکال کر سعودی عرب بھجوا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے نوسال تک حکومت کی اور جب انہیں گلی محلوں میں گالی گلوچ کا سامنا کرنا پڑا تو فوجی جرنیلوں نے انہیں گارڈ آف آنر دلوا کر ایوان صدر سے رخصت کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں فوجی جوانوں اور افسران کیلئے وردی پہن کر عام پاکستانیوں میں جانا مشکل ہو گیا تھا۔ سیاسی جماعتوں نے مارشل لاء کا راستہ روکنے کیلئے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے عدالتوں سے مارشل لاء کی تائید کا اختیار چھین کر دریائے سندھ میں بہا دیا۔ سپریم کورٹ نے جنرل مشرف پر بغاوت کا مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔ جنرل راحیل شریف نے بہت کوشش کی کہ یہ مقدمہ نہ چلے لیکن مقدمہ چلا اور سزا بھی سنا دی گئی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مشرف کو سنائی جانے والی سزا پر عملدرآمد نہ ہونے دیا لیکن سزا سنانے والے جج جسٹس وقار سیٹھ ایک ہیرو بن گئے۔ پاکستان میں مارشل لاء نافذ کرنے والے ہر جرنیل کا انجام برا ہوا لہٰذا باجوہ دور میں ایک نئی ڈاکٹرائن ایجاد کی گئی۔ باجوہ ڈاکٹرائن یہ تھی کہ مارشل لاء لگائے بغیر فوج کے ذریعے ملک کو کو چلایا جائے 2018ء کے الیکشن کے بعد عمران خان کو وزیر اعظم تو بنا دیا گیا لیکن عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کو سلب کر لیا گیا۔ پارلیمینٹ میں قانون سازی بھی فوجی افسران کی نگرانی میں ہوتی تھی اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے نت نئے قوانین کے مسودے بھی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کی طرف سے کابینہ کو بھجوائے جاتے تھے۔ عمران خان نے باجوہ ڈاکٹرائن سے جان چھڑانے کیلئے جنرل فیض حمید کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے اور اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب وہ جیل میں بیٹھ کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت نے عمران خان کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے باجوہ ڈاکٹرائن سے استفادہ شروع کر رکھا ہے۔ جنرل باجوہ کے دور میں سیاسی اجتماعات اور مظاہروں پر پابندی لگانے کیلئے ایک قانون کا مسودہ بنایا گیا لیکن یہ قانون اسمبلی میں نہ لایا جا سکا۔ پیکا ایکٹ میں ترمیم کر کے صدارتی آرڈیننس لایا گیا لیکن یہ آرڈیننس اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا تھا۔ شہباز شریف حکومت نے سیاسی اجتماعات پرپابندی کے قانون کو پبلک آرڈر 2024ء کے نام سے پارلیمینٹ سے منظور کرا لیا۔ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کو بھی منظور کرا لیا گیا فوجی عدالتیں پہلے سے موجود ہیں اب پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت خصوصی عدالتیں بھی بنیں گی اور حکومت کے ناقدین کو ان عدالتوں سے سزائیں ملیں گی۔ مارشل لاء کا اعلان کئے بغیر مارشل لاء لگانے کی جس ڈاکٹرائن پر جنرل باجوہ عمل کر رہے تھے اسے شہباز شریف کی حکومت نے چرا لیا ہے۔ اب ہم حکومت کی اجازت کے بغیر اسلام آباد میں سنگجانی کے سوا کسی اور جگہ سیاسی اجتماع نہیں کر سکتے اور سوشل میڈیا پر تنقید کریں گے تو فیک نیوز پھیلانے کے الزام میں خصوصی عدالتوں میں مقدمات چلیں گے۔ یہ مارشل لاء نہیں تو کیا ہے؟ شہباز شریف حکومت اپنے اقدامات سے بہت جلد ہمیں یہ کہنے پر مجبور کر دیگی کہ انکی حکومت جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومتوں سے بہت آگے کی چیز ہے۔ ماضی کے ڈکٹیٹروں نے فوجی وردی پہن کر جمہوریت کو قتل کیا لیکن آج کے پاکستان میں جمہوریت کو قتل کرنے کیلئے فوجی وردی پہننے کی ضرورت نہیں رہی اس کام کیلئے اب سیاست دانوں کے ذریعے پارلیمینٹ کو استعمال کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین