آج ریاست پاکستان کو مینج کرنے والوں اور قومی امور کے جملہ اسٹیک ہولڈرز خصوصاً حکومتی اپوزیشن جماعتوں اور مملکت کی ڈیپ اسٹیٹ کے پالیسی و فیصلہ سازی کے سب ذمے داراکابر کی خصوصی توجہ مطلوب ہے۔ ’’آئین نو‘‘ کے جاری موضوع پر اس سیریز کا خصوصی حوالہ ابلاغی علم (کمیونیکیشن سائنس) کی مدد سے پاکستان کے جاری اور پیچیدہ سے پیچیدہ اور طویل سے طویل تر ہوتے سیاسی و آئینی اور معاشی و انتظامی قومی بحران کو کم سے کم تر کرتے ختم کرنے کی علمی و صحافتی سعی ہے ۔اب جو نکتہ (پوائنٹ) راقم الحروف کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش کیاجا رہا ہے وہ بلاشبہ تفصیلی وضاحت کا طالب تو ہے جس پر موضوع کے دائرے سے نکلنے یا غیر ضروری طوالت کا خدشہ ناچیز پر واضح ہے سو آئیں فہم کے ہدف کو باٹم لائن (لب لباب) تک محدود کرکے عملی حل کی طرف جلد سے جلد پہنچتے ہیں یہ جو جاری موضوع کی سیریز کے عنوان کا پہلا سہ لفظی حصہ ’’نتیجہ خیز انقلابی حل‘‘ ہے یہ جاری بحران کا انقلابی، اختراعی اور نتیجہ خیز حل (بطور زیر بحث موضوع کے اسپیشل ریفرنس) اس لئے ہے کہ یہ کمیونیکیشن اورینٹڈ نالج بیسڈ اور بحران کا غیر روایتی حل ہے۔
یوں خاکسار کے بہت تفصیلی اور وضاحت طلب حل کا مختصرترین بیانیہ موجود گھمبیر بحران بڑے فیصد مسلسل ہوتے کمیونیکیشن ڈیزاسٹر سے پیدا ہوا اب یہ انقلابی و انوکھی نوعیت کی کمیونیکیشن سپورٹ (ابلاغی معاونت) سے ہی حل ہو گا۔یعنی بیانیہ یہ بنا کہ بحران کی بڑی وجہ ابلاغی تباہی اور حل علم ابلاغ چونکہ ہماری بحرانی سیاسی تاریخ میں حکومتی و سیاسی بحرانوں کے حل بلاشبہ مذاکرات کے محدود سے آپشن سے کرنے کی سیاسی سرگرمیوں کی ایک تاریخ موجود ہے جس میں بحیثیت مجموعی مذاکرات (بطور بڑی اور درست سیاسی و ابلاغی سرگرمی) کا ایک ریکارڈ موجود ہے لیکن بنیادی طور پر یہ نیک نیت کوششیں بحیثیت مجموعی ناکامی کے ساتھ ختم ہو گئیں کیونکہ یہ اہم و حساس اور بڑی ابلاغی سرگرمی (مذاکرات) کمیونیکیشن ڈیزاسٹر میں تبدیل ہو کر الٹ نتائج دے گی بحران بھی تو بعداز ناکام مذاکرات مارشل لائوں کے نفاذ اور کبھی کسی ماورائےآئین کسی حکومتی (سول) بلڈوز جیسے ایکشن سے ایک اور نوعیت کے قومی سیاسی بحران میں تبدیل ہو گیا۔ ان غیر آئینی حکومتی اقدامات نیم تحقیقی کام سے رکے ایمی جیٹ بیک گرائونڈ میں طرح طرح کے مہلک کمیونیکیشن ڈیزاسٹرز کو ہماری سیاسی تاریخ کے بحران سے ٹریس آئوٹ کرکےثبوت کے طور پیش کرنا باآسانی ممکن ہے ۔تاریخی تناظر میں اگر ’’مذاکرات‘‘ کے حوالے سے سیاسی بحران کا جائزہ آج کے پی ٹی آئی اور حکومتی تقریباً ناکام ہوتے ’’مذاکرات‘‘ کے تناظر میں لیں تو ایوب حکومت کے خلاف نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت سے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈیک) کے بہت کامیاب ہوتے ہوئے یکدم ناکام ہو کر تعطل سے یحییٰ والے مارشل لا کے نفاذ کا باعث بنے ۔الیکشن 70کے بعد ڈھاکہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے انکار کے بعد بھٹو اور یحییٰ کے عوامی لیگ کی ناکامی تو ملک شکن مذاکرات بن گئے۔
1977ء کے دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف پاکستان جمہوری اتحاد کے نئے الیکشن کرانے کی ملک گیر تحریک اور پی پی حکومت کی اس کے خلاف 4ماہی مزاحمت کے بعد ہونے والے مذاکرات بھی کامیاب ہوتےہوتے کیسے 4جولائی کو ضیا الحق کے نفاذ مارشل لا میں تبدیل ہو گئے۔اس موضوع پر ان تینوں بڑی کیس اسٹڈیز کا تجزیہ و تحقیق یہ ثابت کریں گے کہ ان تینوں تباہ کن سیاسی ناکامیوں کے پس پردہ یا کھلے عام چھوٹے بڑے کمیونیکیشن ڈیزاسٹر بڑے فیصد میں بحرانوں کو بذریعہ حل کرنے کی بذریعہ ابلاغ (مذاکرات) باہمی سیاسی کوششوں کے باوجود کیونکر ناکام ہوئے ؟ تو اس کا ایک مشترکہ جواب یہ ہی ہو گا کہ بڑے فیصد میں ہی اس تباہ کن ناکامی کی وجہ مہلک سیاسی ابلاغ جو پابند مجموعی بحیثیت غیر ذمے دارانہ سرکاری میڈیا اور کسی حد تک اپوزیشن کے، بے اختیار سے ہونے والا، سیاسی ابلاغ برائے عوام و خواص تھا ۔واضح رہے ہر تینوں کیس اسٹڈیز میں حکومت اور اپوزیشن کے علاوہ عسکری قیادت یا سیٹ اپ ان بڑے ڈیزاسٹر کمیونیکیشن آپریشنز کا براہ راست یا بالواسطہ مکمل قابل دید یا پس پردہ ابلاغی فریق تھا ملکی اسٹیبلشمنٹ کی پاکستانی حکومتی و سیاسی امور میں مداخلت ہماری گورننس کی تاریخ کا ایک بڑا بلکہ شہرہ آفاق ریفرنس مکمل ثابت شدہ ہے خودعسکری قیادت کے معاون ابلاغی معاونت کے ذرائع اور بعض سابق عسکری قائدین یا انکے ان عہدوں کے بڑے معاونین اپنی ریٹائرڈ لائف کے مراحل میں اس کا اعتراف کرتے چلے آ رہے ہیں ایک قومی بحث یہ ہے کہ اس عسکری مداخلت کےپھر بڑے ہی فیصد میں ذمے داری خود سیاست دانوں یا انکے حکومتوں سے بیزار عوامی رویے پر عائد ہوتی ہے بڑی تعداد میں کتنے ہی تجزیہ کاروں کی طرح ایک بڑے فیصد میں اس بیانئے کو درست ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ تینوں ہی کیس اسٹڈیز میں غیر ذمے دارانہ سیاسی ابلاغ اور اسے حاصل معاونین کی پروپیگنڈا اورینٹڈنیم حکیمی لیکن بہت جارحانہ معاون ابلاغ سیاسی مہمات نے نفاذ مارشل لاکا ماحول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تمام ہی سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل ان کے حامی و معاون صحافی ،صحافتی ادارے بھی اس پر جوابدہ ہیں لیکن مختلف ادوار کی اسٹیبلشمنٹ نے جو ابلاغی کھلواڑ کئے وہ اس سے بڑھ کر رہے گویا علم ابلاغ کے اطلاق کو مائنس کرتے ہر دو ذرائع سیاسی ابلاغ نے اپنی اپنی نیم حکیمی اور اس پر یکسو ہوتے اور اسے یہ سچ مانتے ،جانتے، سمجھتے یا نیک نیتی و بدنیتی سے ملکی سیاسی و معاشی انتظامی تباہی تو مچائی ۔(جاری ہے )