کچھ دن سفر میں رہا مگر جب موقع ملا کچھ کالم اور کچھ دوستوں کی تحریریں پڑھتا رہا۔ ان دوستوں میں زاہد حسین، احمد رشید، ہارون رشید اور کئی بہت معقول اور Credible لکھاریوں نے بار بار لکھا کہ حالات بہت نازک ہیں اور یہ موجودہ شکل کی جمہوریت نہیں چل سکتی۔ سب لوگ تو لکھ ہی رہے تھے مگر اب تو کرائے کے لکھنے والے اور اپنے آپ کو بڑا جغادری سمجھنے والے ایک کالم نگار جو ہر حکومت کے گیت اس طرح گاتے ہیں جیسے ان سے بڑا وفادار کوئی ہو ہی نہیں سکتا، وہ بھی یہ لکھ رہے ہیں کہ یہ جمہوریت چوروں اور ڈاکوئوں کو بچانے کے لئے ہی ہے یعنی ملک میں ایک Consensus بن رہا ہے کہ یہ جمہوریت اس شکل میں نہیں چل سکتی۔ میں جب سفر کے دوران لوگوں سے مل رہا تھا تو بار بار یا تو ترکی کا ماڈل زیر بحث آتا تھا یا مصر کا۔ مصر میں جو کچھ ہوا وہ عبرت ناک ہے اور جو کردار ان سارے ملکوں کا تھا جو ہمارے بڑے خیرخواہ اور دوست سمجھے جاتے ہیں وہ غور طلب ہی نہیں پریشان کن ہے۔ ترکی کے ماڈل کی بات تو میاں نواز شریف کے حوالے سے ہوتی ہے کہ وہ فوج کو اپنا تابعدار بنانا چاہتے ہیں جیسا طیب اردگان نے کیا، مگر میاں صاحب جلدی میں ہیں اور اردگان بننے کا وقت ان کے پاس نہیں ہے۔ مصر کا ماڈل صدر مرسی کا عبرت ناک انجام ہوا ہے حالانکہ وہ الیکشن جیت کر آئے مگر ایک سال بعد ہی فوج اور باہر کے ملکوں کے مطابق وہ کچھ Deliver نہیں کر سکے اور دوبارہ فوج نے قبضہ کر کے ایک فوجی حکومت جس میں سویلین بھی شامل ہیں، بنا دی مگر جس طرح امریکہ اور سعودی عرب نے جنرل سیسی کی حکومت پر ڈالروں کی بارش کر دی اس سے پاکستانی سیاست دانوں کو ڈرنا چاہئے۔ اگر مصر کا ماڈل پاکستان میں لایا گیا تو پھر یہاں کے جنرل سیسی کو بھی ایک دن میں 500 اور 1000 لوگوں کو سزائے موت دینی ہو گی اور اگر ایسا ہوا تو سوچنا چاہئے وہ کون سے لوگ ہوں گے؟ یہ سب لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری جمہوریت یا تو چلنے کے قابل نہیں یا چلانے والے ناکارہ ہیں اور اپنے ذاتی، خاندانی اور تجارتی مفادات سے آگے سوچ نہیں سکتے۔ چلانے والوں کو تو لوگ دیکھ ہی رہے ہیں۔ چھ، سات سال جنرل کیانی نے فوج کو سیاست سے دور رکھا اور اس طرح بھیگی بلّی بنا کر رکھا کہ زرداری اور ان کے گروپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا جن پر الزام ہے کہ انہوں نے بہت کرپشن کی اور وہ جاتے جاتے نواز شریف کو بھی یہ سبق سکھا گئے کہ ہم کو ہاتھ نہ لگائو، ہم تمہاری حکومت کے پیچھے کھڑے رہیں گے۔ بعض لوگ اس بارے میں یوں کہتے ہیں جو ہم نے کھایا وہ ہمارا مقدر اور جو تم کھا سکتے ہو وہ تمہارا، اور یہی جمہوریت کا حسن لوگوں کو دکھایا گیا۔ میاں صاحب کو جب ذرا خطرہ محسوس ہوا وہ فوراً زرداری سے مشورہ کرنے لگے اور دوبارہ مفاہمت کا ڈھول بجا کر لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی کہ عوام کی حکمرانی قائم ہے اور جمہوریت یعنی ہماری ملی جلی بادشاہت کو کوئی خطرہ نہیں ہے مگر یہ چورن اب پرانا ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ اپنے مسائل کا حل مانگتے ہیں۔ ایک مختصر نظر آج کل کے حالات پر ڈالیں تو دور سے نظر آئے گا کہ نہ حکومت چل رہی ہے نہ جمہوریت اور نہ ان لوگوں کو اسے چلانے میں کوئی دلچسپی ہے نہ ہی کوشش۔ آج کی جمہوریت میں ہر دوسرے دن ایوان وزیراعظم میں فوجی جنرل اس طرح جا کر بیٹھتے ہیں کہ مخالف یہ کہتے ہیں کہ فوج اور حکومت برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہیں یعنی ایک کرسی پر وزیراعظم اور دوسری پر جنرل راحیل بیچ میں پاکستان کا جھنڈا۔ ایک سائڈ کی ٹیم میں وزراء ہوتے ہیں اور دوسری طرف ISI کے چیف اور کوئی اور جنرل تشریف فرما ہوتے ہیں۔جمہوریت پسندوں کے خیال کے مطابق یہ برابری کی بنیاد ہی جمہوریت کے اور آئین و قانون کے خلاف ہے مگر کمزوری سیاست دانوں کی ہے کہ وہ اتنے دبائو میں ہیں کہ اگر جنرل نے وزیراعظم سے ہاتھ نہیں ملایا یا سلوٹ نہیں کیا یا تصویر میں غصّے میں نظر آئے تو اخباری سرخیاں اور قیاس آرائیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ بعض حلقوں کے خیال کے مطابق جمہوریت کے سب سے بڑے ادارے یعنی پارلیمنٹ کو خود سیاست دانوں نے بے توقیر اور ایک سرکس اور بحث اور مذاق کرنے کا کلب بنا دیا ہے۔ خود وزیراعظم ایوان بالا ایک دفعہ نہیں جا سکے۔ شاید ان کی شان میں کچھ کمی آ جائے گی اگر وہ سینٹ چلے گئے۔ حکومت کے مخالف یہ کہتے ہیں کہ وزراء کا حال یہ ہے کہ وہ ایک بیان دیتے ہیں اور دس دن معافی مانگتے ہیں۔ ملک اور خطّے کو جو مسائل کا سامنا ہے وہ لگتا ہے حکومت کی سوچ اور پہنچ سے باہر ہے۔ نہ کوئی وزیر خارجہ نہ وزیر دفاع نہ وزیر قانون، لیکن مخالف یہ کہتے ہیں کہ خاندانی طرز حکومت اور ہر ادارے کے ساتھ پنگا، جو اربوں، کھربوں، دوستوں اور پارٹی کے ساتھیوں کے فوائد کیلئے اخراجات کئے وہ تقریباً ضائع ہو گئے کیونکہ نہ ہی قرضے اترے نہ لوڈشیڈنگ ختم ہوئی، نہ کسی کو حالات بہتر ہونے کی امید نظر آئی۔ ہاں دھڑادھڑ بڑے بڑے منصوبے بانٹے جا رہے ہیں اور سبز باغ دکھا کر گزارا ہے۔ یہ سب آخر کہاں تک چلے گا؟ لگتا ہے عمران خان، طاہر القادری، جماعت اسلامی، فوج، عدالت عالیہ اور میڈیا سب ایک ہی صفحے پر آتے جا رہے ہیں، حکومت اور زرداری گروپ الگ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں۔ اب تو میاں صاحب نے یہ شکایت بھی کر ڈالی کہ انہوں نے 6؍سال زرداری کی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا تو ان کی حکومت کو کیوں عوامی جلوسوں اور دھرنوں سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حکومت اور جمہوریت خود ناکام ہو رہے ہیں۔ جب ایک نظام میں اپنی غلطیوں اور لوٹ مار کو روکنے کا کوئی نظام نہیں ہو گا یعنی جس گاڑی میں بریک اور اسٹیرنگ ہی نہیں ہو گا کہ اس کو صحیح سمت موڑا جا سکے یا روکا جا سکے وہ گاڑی تو گہرے کھڈ میں ہی گرے گی۔ اب مخالف تو یہ کہتے ہیں کہ نواز حکومت کی گاڑی اسی گہرے کھڈ کی جانب دوڑ رہی ہے۔ یہ وقت جمہوریت کے ماموں، چاچوں اور علم برداروں کیلئے بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ کیسے اس نظام کو راہ راست پر لائیں گے؟ زرداری نے تو ایک نیا سیاسی فلسفہ پیش کیا تھا کہ الیکشن کے بعد پانچ سال تک کوئی کسی طرح کا احتساب نہیں کر سکتا سوائے عوام کے، جو ووٹوں سے احتساب کریں گے یعنی ان کے فلسفے کے مطابق ان کا احتساب ہو گیا اور ان کو حکومت سے ہٹا دیا گیا مگر کیا یہ کافی ہے؟ وہ ابھی بھی اسی طرح صدارتی شان سے رہتے ہیں۔ ذاتی جیٹ طیاروں میں سفر کرتے ہیں اور عوام پر سوار ہیں تو احتساب کدھر گیا؟ جو اربوں کھربوں لوٹے گئے وہ ان کے حلال ہو گئے…اور آج کل کے حکمرانوں کے بارے میں جغادری کالم نگار جن کا نام لکھنے سے بھی شاید ان کی عزت میں داغ لگ جائے وہ کہتے ہیں ’’ڈاکو حکمرانوں کا ٹولہ پاکستان کے معاشرتی جسم کی بوٹیاں بے رحمی سے نوچ رہا ہے، لہو نچوڑ نچوڑ کر اپنے طبقے کے پاس جمع کر رہا ہے، کوئی اسے روکنے والا نہیں، کوئی ٹوکنے والا نہیں‘‘۔ احمد رشید اپنے کالم ’’غیر یقینی حالات‘‘ میں لکھتے ہیں ’’پاکستان کی سیاسی قیادت کوئی واضح حکمت عملی اپناتی دکھائی نہیں دیتی‘‘۔ زاہد حسین نے اپنے کالم "A disaster in waiting" میں لکھتے ہیں ’’حکومت نے اپنی طاقت کے بارے میں بہت غلط اندازے لگائے ہیں، فوج کو نیچا دکھانے کا عمل الٹا پڑ گیا ہے۔ جمہوریت اس طرح نہیں چل سکتی اور لگتا ہے دو بار نکالے جانے والے وزیراعظم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اب ایک تباہی سر پر کھڑی ہے‘‘۔ یہ سب لوگ پیسے لے کر تبصرے نہیں کر رہے۔ جمہوریت واقعی ناکام ہو گئی ہے اور اب راستہ تباہی ہی کا ہے۔