• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کنسنٹریشن کیمپ سے آزادی کیسے حاصل کی جاتی ہے؟

دہشت گرد اور حریت پسند میں باریک سا فرق ہوتا ہے، بس وہی جاننے کی ضرورت ہے، وگرنہ نیت تو طالبان کی بھی شریعت نافذ کرنے کی تھی، اسی لیے ہمارے بہت سے مہربان دھوکہ کھا گئے، وہ اِس باریک فرق کو نہ جان پائے۔ فلسطین کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اِس مسئلے پر جب بھی بات ہوتی ہے تو کچھ باتیں فرض کر لی جاتی ہیں جیسے کہ فلسطینیوں کو مسلح جدوجہد کا شوق ہے اور انہوں نے کبھی پُرامن راستہ اپنانے کا نہیں سوچا، اور یہ کہ جس طرح ہندوستان نے پُرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کی اسی طرح فلسطین کی آزادی بھی ممکن بنائی جا سکتی تھی مگر جس قسم کی جذباتی فضا آج بنا دی گئی ہے اُس میں کسی کو یہ عقل کی باتیں نہیں سوجھتی وغیرہ وغیرہ۔ بظاہر دلیل میں وزن ہے مگر وہی بات کہ باریکی میں جائیں تو انگریزی محاورے کے مِصداق اسے comparing apples to oranges کہیں گے۔ دنیا میں آزادی کی تحریکوں کی مختلف شکلیں ہیں، کوئی ایک ایسا فارمولہ نہیں جو سب تحریکوں پر یکساں لاگو کیا جا سکے۔ برصغیر کی تحریکِ آزادی کو فلسطین کی تحریک پر منطبق نہیں کیا جا سکتا، فلسطین کی آزادی کو اگر کسی مثال سے جوڑا جا سکتا ہے تو وہ نازی جرمنی میں یہودیوں کو حراستی مراکز میں رکھنا ہے۔ اِن کنسنٹریشن کیمپس میں جس طرح یہودیوں کو بند کیا جاتا تھا بالکل اسی طرح فلسطینی آج غزہ نامی کنسنٹریشن کیمپ میں قید ہیں۔ جس طرح نازی فوج بلاوجہ اِن کیمپوں میں یہودیوں کو قتل کر دیتی تھی، اُن پر تشدد کرتی تھی اور اُن کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتی تھی بعینہ وہی سلوک اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے ساتھ کرتی ہے۔ اور جس طرح یہودی اُن کیمپوں میں بے بس اور مجبور تھے بالکل اسی طرح فلسطینی بھی غزہ اور مغربی کنارے میں محصور ہیں اور روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے اسرائیلی حکومت کے محتاج ہیں۔ اِن حالات میں اگر وہ بی اے تو کیا پی ایچ ڈی بھی کر لیں اور اُن تمام مشوروں پر عمل بھی کر ڈالیں جو غیر جذباتی دانا دوست دے رہے ہیں تو بھی اُنکا وہی حال ہوگا جو یہودیوں کا نازی جرمنی میں ہوا۔ یاد رہے کہ اِن کیمپوں میں قید یہودیوں سے زیادہ پڑھا لکھا، با شعور اور زیرک کوئی نہیں تھا اور اُن کے پاس وسائل کی بھی کمی نہیں تھی، مگر اِس کے باوجود اُن کی پُر امن فریاد کسی نے نہیں سنی، انہیں رہائی ملی تو بالآخر اتحادی فوج کی مدد سے جس نے جرمنی کو فوجی شکست دی، جرمن فوج نے ہتھیار ڈالے، ہٹلر نے خودکشی کی، تب کہیں جا کر پتا چلا کہ کنسنٹریشن کیمپس میں یہودی قید ہیں جن کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ اگر کوئی مجھے یہ سمجھا دے کہ اُن کنسنٹریشن کیمپس میں قید یہودی مذاکرات کے ذریعے پُرامن طریقے سے نازی جرمنی سے نجات پا سکتے تھے تو میں اپنا مقدمہ واپس لے لوں گا۔

بی اے ایک استعارہ ہی سہی مگر یہ مغالطہ بھی دور کر لینا چاہیے کہ دنیا میں مسلح جدوجہد کرنے والے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے۔ چند نام پیش ہیں۔ نیلسن منڈیلا، جسے امریکہ چند سال پہلے تک دہشت گرد کہتا رہا، ایک قانون دان تھا۔ چی گویرا میڈیکل ڈاکٹر تھا، یاسر عرفات سول انجینئر تھا اور ہوچی مِن فرانس سے تعلیم یافتہ تھا۔ فرانس کے سب بڑے فلسفی سارتر نے فرانتس فینن کی کتاب افتادگانِ خاک کے دیباچے میں لکھا کہ نوآبادیاتی تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد لازم ہوجاتی ہے۔ اور یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا غزہ کے فلسطینیوں نے مسلح جدوجہد کے علاوہ پُر امن احتجاج کا کبھی کوئی طریقہ نہیں اپنایا؟ فلسطینیوں نے کتاب میں لکھا ہوا ہر پُرامن طریقہ آزما کر دیکھ لیا مگر نتیجہ وہی نکلا جو نازی جرمنی کے کنسنٹریشن کیمپس میں نکلا تھا، مزید قتل عام۔ آج کے فلسطین کیلئے ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جسے Genocide کے وزن پر Scholasticide کہا جاتا ہے، اِس سے مراد تعلیمی انفراسٹرکچر کی منظم تباہی ہے، اسرائیلی فوج جس طرح چُن چُن کر غزہ میں اسکولوں، یونیورسٹیوں، لائبریریوں ، اساتذہ اور طلبہ کو نشانہ بنا رہی ہے، یہ اصطلاح اُس تناظر میں تراشی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جسے دانش کا قتل عام کہا جا رہا ہے۔

سب سے بڑا مغالطہ جسے دور کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ موجودہ لبرل آرڈر انسان دوست ہے جو انصاف پر قائم ہے اور یہ متعصب یورپئین Judeo Christian ماڈل، فلسطینیوں کو نہایت عزت و احترام سے اِس بات کی اجازت دے گا کہ وہ میز پر بیٹھ کر مذاکرات کریں جس کے بعد اُن سے پورا انصاف کیا جائیگا۔ آج کی تاریخ میں اگر اسرائیلی فوج غزہ اور مغربی کنارے کو صفحہ ہستی سے مِٹا بھی دیتی اور فلسطینیوں کی پوری نسل ختم کر دیتی تو بھی مغربی دنیا کے کان پر جوں نہ رینگتی اور وہ اُسی کرّوفرَ کیساتھ کرسمس مناتے جس طرح انہوں نے منائی ہے۔ آج کی تاریخ میں اگر فلسطینی وہ تمام کام کر بھی لیں جن کا مشورہ دانا دوست جذباتی ہوئے بغیر دیتے ہیں تو بھی اُن کیساتھ وہی سلوک کیا جائیگا جو نازی جرمنی میں یہودیوں کیساتھ حراستی مراکز میں کیا گیا تھا، اُن کے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا تھا۔ بطور لکھاری ہمارا کام صرف یہ ہے کہ جس بات کو درست سمجھیں وہی لکھیں۔ مُسلّح جدوجہد کوئی رومانوی تصور نہیں جسے آئیڈلائز کیا جائے، کوئی بھی شخص اپنی خوشی سے سر پر کفن باندھ کر گھر سے نہیں نکلتا اور نہ ہی کوئی اپنے بچوں کو غیرملکی قابض فوج کے ہاتھوں قتل ہونے کے لیے چھوڑنا چاہتا ہے۔ ہمیں صرف یہ باریک سا فرق سمجھنا ہے کہ کنسنٹریشن کیمپوں میں رہنے والوں کے پاس فیصلہ کرنے کی چوائس نہیں ہوتی، یہ اختیار ہی اُن کے پاس نہیں ہوتا کہ وہ بندوق تانے ہوئے فوجیوں کے ساتھ مذاکرات کریں۔ آسکر ایوارڈ یافتہ فلم Schindler's Listکا ایک منظر یاد آ گیا جس میں نازی کیمپ میں تعینات ایک فوجی صبح نیند سے بیدار ہوتا ہے اور اپنی بالکونی سے کیمپ کا معائنہ کرتا ہے اور پھر نہایت اطمینان سے رائفل سے نشانہ باندھ کر خواہ مخواہ ایک یہودی قیدی کو گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے۔ فلسطینیوں کے معاملے میں اسرائیلی فوج بالکل اسی طرح بے حس ہے اور اُن کے نزدیک ایک فلسطینی کی زندگی کی اِتنی ہی وقعت ہے کہ اُسے جب چاہیں بغیر کسی وجہ کے ختم کر دیں، اِسکے لئے انہیں کسی 7 اکتوبر کا انتظار کرنے یا حماس کی کارروائی کو جواز بنانے کی ضرورت نہیں۔ اِن لوگوں نے اوّل تو کسی کو بی اے کرنے نہیں دینا ہے اور اگر کسی نے رو پیٹ کر بی اے کر بھی لیا تو اسے بھی قتل ہی کرنا ہے، کنسنٹریشن کیمپ سے آزادی بی اے کرکے نہیں، فقط دشمن سے لڑ کر حاصل کی جا سکتی ہے، اب تک کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔

تازہ ترین