سب سے پہلے مولانا ظفر علی خان فاؤنڈیشن اور اس کے ذمہ داران کا شکر گزار ہوں بالخصوص چیئرمین جناب خالد محمود صاحب کاجنہوں نے اس ناچیز کو اس خصوصی خطاب کے قابل سمجھا ۔میرے جیسے بندے کو جو یہاں اتنی بڑی میجارٹی کے سامنے ایک انتہائی معمولی اقلیتی سوچ کا حامل ہے اسلئے کسی نوع کی تلخ نوائی پر پیشگی معذرت قبول فرمائیں۔میں خود اس بات کی وضاحت کئے دیتا ہوں کہ ناچیز بنیادی طور پر ایک مولوی ہے، جو اپنی اوائل عمری میں درس قرآن بھی دیتا رہا اس لیے آپ اسے ریٹائرڈ مولوی کہہ سکتے ہیں جس طرح ہمارے عام دیہاتی گھرانوں میں ہوتا ہے، یہ درویش اور اس کے گھر والے بریلوی اہل سنت تھے جبکہ یہ ناچیز دیوبندی ہوگیا پھر حدیث شریف پڑھتے ہوئے اہل حدیثوں یا وہابیوں میں شامل ہوگیا،مجھے وہ دن یاد ہے جب کعبہ شریف پر بلوائیوں نے قبضہ کر لیا اور مشہور ہوگیا یا کر دیا گیا کہ یہودیوں نے خانہ کعبہ پر قبضہ کرلیا ہے اہل حدیثوں کی مسجد میں ظہر پڑھتے ہوئے دعائیہ ہاتھ اٹھائے ہم لوگ بھی قنوت پڑھ رہے تھے، اس قنوت میں یہود پلس امریکا پر لعنتیں بھیج رہے تھےاور بہت سے لوگ رو رہے تھے، اسی دوران مودودیہ بھی ہو چکا تھا پھر خمینی کا اسلامی انقلاب آیا تو شیعہ مسلک سے قربت مزید بڑھ گئی یہ بھی لمبی داستان ہے مابعد اصلاحی صاحب اور غامدی صاحب سے ہوتے ہوئے براستہ سرسید اور ڈاکٹر طہ حسین دیگر مذاہب عالم کی طرف مراجعت ہوئی گوتم بدھ اور جیزز تک رسائی ہوئی اوربالآخر بابا بلھے شاہ سرکار کا مرید بن گیا ہے۔
آج میں آپ کے سامنے پاکستان کے اندرونی و بیرونی مسائل پر اظہار خیال کیلئے شکر گزاری کے ساتھ کھڑا ہوں مولانا ظفر علی خان کی شخصیت بھی بڑی دلچسپ تھی ،وہ بڑے وسیع المشرب تھے ۔
حضرات گرامئ قدر! عرض یہ ہے کہ جب سے پیدا ہوا ہوں یہ سن رہا ہوں کہ پاکستان اندرونی و بیرونی مسائل میں گھرا ہوا ہے یا یہ کہ ہمارا ملک نازک دور سے گزر رہا ہے تو بندہ کسی نہ کسی دن ضرور یہ سوچتا ہے کہ وہ خوفناک یا اندوہناک مسائل ہیں کیا؟ جن میں ہمارا یہ پیارا ملک پھنسا ہوا ہے یہ سوچتے ہی پہلی خرابی جو ذہن میں آتی ہے وہ اس کی ڈوبتی و ہچکولے کھاتی معیشت ہے، اس کی قومی گاڑی ہے جس کی کبھی تو بریکیں فیل ہو جاتی ہیں اور کبھی لائٹیں کبھی رنگ پسٹن اور کبھی انجن خراب ہو جاتا ہے، کم از کم چار مرتبہ تو اس کے انجن کی اوورہالنگ بھی ہو چکی ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ گاڑی آج بھی مانگے تانگے کے پہیوں اور پرزوں سے چل رہی ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر کہوں گا کہ اس کمزور جان کو مسائل ہی مسائل درپیش ہیں شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارٹیشن میں ہمیں جو وسائل دستیاب ہوئے تھے جنہیں ہم اثاثہ جات کہہ سکتے ہیں ان کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی تھیں اب ہم اپنی مسلح فورسز کو اپنا اثاثہ کہیں گے یا ذمہ داریاں ؟ جو بھی کہیں، ہمارے حجم سے روز اول ہی یہ اچھی خاصی زیادہ تھیں جغرافیہ، پاپولیشن اور اس نئے ملک میں موجود انفراسٹرکچر کو ایک جانب رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیں تو یہ سب پانچواں چھٹا حصہ بنتی ہیں مجموعی ہندوستان کا جبکہ فورسز الحمدللہ ہمیں انڈین فورسز کا ون تھرڈ مل گئی تھیں جنہیں ہم لوگوں نے مزید بڑھاوا دیا۔
رویش کو اچھی طرح یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے ایک مرتبہ اس نوع کا قومی مذاکرہ یا مباحثہ کروایا تھا جس کا عنوان تھا ’’پاکستان کا مسئلہ نمبر ون کیا ہے؟‘‘ اس میں ہمارے محترم ڈاکٹر جاوید اقبال کے علاوہ جناب حسین حقانی اور احسن اقبال نے بھی اپنے اپنے خیالات پیش کیے تھےدلچسپ امر یہ ہے کہ جو ایشوز یا رولے تب ضیاءالحق کے وقت تھے اتنی دہائیاں گزرنے کے باوجود وہی بکھیڑے آج بھی ہیں آج بھی اگر اس نوع کا مباحثہ کروایا جائے تو لوگ اپنی اپنی ترجیحات کی مطابقت میں ویسے ہی بولیں گے کئی ایسے بھی مل جائیں گے جو آج بھی کشمیر کو پاکستان کا مسئلہ نمبر ون کہہ ڈالیں گے جیسے کہ اس وقت کئی حضرات نے کہا یامسئلہ افغانستان کو پاکستان کا مسئلہ نمبر ون کہہ دیا، اگرچہ اس طرح سوچنے والوں کی سوئی آج بھی وہیں کہیں اٹکی ہوئی ہے ۔ (جاری ہے)
(مولانا ظفر علی خان فاؤنڈیشن میں کی گئی تقریر)