• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں حسب عادت کام کاج سے فارغ ہو کر گھر آتے ہی سیدھا والد ماجد کے کمرے میں انہیں سلام کرنے کیلئے جاتا ہوں مگر ان کابستر خالی ہوتا ہے انکی چھڑی اور شیروانی کھونٹی سے لٹکی ہوتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ باتھ روم تک گئے ہیں۔ میں ہر بار بھول جاتا ہوں کہ میں انہیں اپنے ہاتھوں سے ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کرآیا تھا۔

ماڈل ٹاؤن لاہور۔ جہاں والد مکرم مولانا بہاء الحق قاسمی نے پچیس برس تک اپنے استاد مکرم اور جامعہ اشرفیہ کے بانی مفتی محمد حسن کے حکم پر گزارے تھے۔ 1950ء کے لاہور میں ماڈل ٹاؤن امرا کی واحد بستی تھی اور جامع مسجد اے بلاک اپنے پرشکوہ ڈیزائن کے باعث اس کا جیتا جاگتا ثبوت بھی تھی۔ اس بستی کے ماڈرن اور صاحب ثروت مکینوں نے والد ماجد کی صورت میں غالباً پہلی بار ایک ایسے ’’مولوی‘‘ کو دیکھا جس کی نظروں میں شان سکندری جچتی ہی نہیں تھی۔ ماڈل ٹاؤن کی اس سب سے بڑی مسجد میں جو ’’مولوی‘‘ آیا تھا اس کی موٹی موٹی غلافی آنکھیں تھیں سرخ و سفید چہرے پر ایک عجیب طرح کا جلال و جمال تھا۔ جب وہ دھوبی کے دھلے ہوئے کڑکڑاتے کپڑوں پر شیروانی پہنے اور سر پر ’’عمامہ ‘‘ باندھے جمعے کے روز منبر رسولؐ پر آ کر بیٹھتا اور لحن داؤدی میں قرآن پاک کی تلاوت کے بعد اپنی گونجدار آواز اور سحر انگیز خطابت سے بستی کے لوگوں کو جھنجھوڑ کر کہتا کہ اپنے اعمال سے خدا کے عذاب کو دعوت نہ دو تو لوگوں کو یہ آواز بہت نامانوس سی لگتی کہ یہ بات اس پیرائے میں انہوں نے اس سے پہلے نہیں سنی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں دولت سے مسخ شدہ کچھ چہرے والد ماجد کے پاس آتے اور کہتے مولانا آپ اپنے کام سے کام رکھیں نماز پڑھائیں، ضروری مسئلے مسائل بتائیں ہماری زندگیوں میں آپ کو دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ والد ماجد نے ان کی بات سنی اور کہا میں صبح ناشتے میں چائے کا ایک کپ اور ایک رس لیتا ہوں دوپہر کو مولی کے ساتھ روٹی کھاتا ہوں اور رات کو ابلے ہوئے چاول دال کے ساتھ کھاتا ہوں۔ اگر کبھی میری ان ضروریات میں اضافہ ہوا تو پھر میں آپ کے مشورے پر بھی غور کروں گا، فی الحال آپ تشریف لے جائیں۔یہ مشورہ دینے والے نہیں جانتے تھے کہ جس شخص سے وہ مخاطب ہیں وہ اٹھارہ برس کی عمرسے اعلائے کلمۃ الحق کیلئے صعوبتیں جھیلتا چلاآیا ہے۔ وہ قیام پاکستان سے قبل بڑی بڑی تحریکوں کے ہراول دستے میں رہا ہے اور وہ ان کے فرنگی آقاؤں کو دیس نکالا دینے کیلئے جیل بھی جا چکا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ جب انہیں خط لکھتے تو انہیں’’حامئی دین مبین مولانا بہاء الحق صاحب قاسمی دام فیضہم ‘‘کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔ پیر مہر علی شاہ صاحب نے انہیں جامع المتفر قین قرار دیا تھا یہ اسوقت کی بات ہے جب پچاس برس قبل جامع مسجد راولپنڈی میں پہلی بار دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے لوگوں نے بیک وقت انکی امامت میں عید کی نماز ادا کی تھی۔ مولانا انور شاہ کاشمیری،ؒجنہیں اقبال وضو کرانا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے تھے، نے اپنے دست مبارک سے والد ماجد مولانا بہاء الحق کی دستار بندی فرمائی تھی چنانچہ والد ماجد کو مشورہ دینے والے لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ جس شخص کو مشورے دے رہے ہیں اسے کن بزرگوں کا فیض حاصل ہے لیکن جب وہ جان گئے تو پھر جو باتیں انہیں ناگوار گزرتی تھیں انہوںنے وہ باتیں بھی صبر سے سننا شروع کردیں اور انہیں نے طوعاً کرہاً اس ’’مولوی‘‘ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تاہم یہ چند لوگ تھے ماڈل ٹاؤن کے لوگوں کی اکثریت کڑوی کسیلی باتیں شیریں لہجے میں سننے کیلئے والد ماجد کے گرد جمع ہوتی اور ان میں تمام مکاتب فکر کے لوگ تھے۔ والد ماجد کی زندگی کا مشن اتحاد بین المسلمین تھا اور وہ اپنے مشن میں اس درجہ کامیاب ہوئے کہ تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے عید کی نماز والد ماجد کی امامت میں ادا کرنا شروع کردی۔

والد ماجد قیام پاکستان کے بعد عملی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے لیکن حکمرانوں کے خلافِ اسلام اقدامات پر جمعہ کے خطبے میں اتنی کڑی تنقید کرتے کہ انکے بہی خواہ انہیں نرم روی کا مشورہ دیتے۔ ایوب خان کے مارشل لا میں جب بڑے بڑے طوطی منقار زیر پر ہوگئے تھے والد ماجد وہ سب کچھ کھلے لفظوں میں کہتے جو کہنےکیلئےبڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔ اس سے پہلے 1953ء میں جب تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوا تو والد ماجد کو مسجد وزیر خان میں تقریر کرتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی اور دوسرے زعما بھی مسجد وزیر خان میں ان کے ہمراہ تھے۔ والد ماجد کو گرفتار کرنے کےبعد شاہی قلعے لے جایا گیا ان پر بغاوت، آتش زنی اور اسی نوع کے خدا جانے کیا کیا الزاما ت تھے ہمیں تین ماہ تک والد ماجد کےبارے میں کچھ پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں ہیں زندہ ہیں یا انہیں مار دیا گیا ہے۔ تین ماہ بعد جب انہیں عدالت میں پیش کیا گیا اورسزا سنائی گئی تو ہمیں انکی زندگی کی اطلاع ہوئی۔

شاہی قلعے میں والدماجد کو ایک کرسی پر بٹھا کر ان کے سر پر ایک تیز بلب روشن کردیا جاتا تاکہ وہ ساری رات سو نہ سکیں جب والد ماجد کو اونگھ آتی تو ان کے پیچھے کھڑا سنگین بردار سپاہی سنگین کی نوک انہیں چبھوتا اور کہتا مولانا جاگتے رہیں، یہ لوگ والد ماجد سے مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے خلاف بیان لینا چاہتے تھے چنانچہ والد ماجد سے یہ بیان دینے کیلئے کہا گیا کہ انہوں نے تحریک میں حصہ عطاء اللہ شاہ بخاری کے اکسانے پر لیاتھا۔ والد ماجد نے اسکے جواب میں کہا مجھے شاہ صاحب نے کیا اکسانا تھا انہوں نے تو ختم نبوت کا درس خود میرے خاندان سے لیا ہے ۔ والد ماجد نے یہ بات یوں کہی کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری مولانا مفتی محمد حسنؒ کی طرح میرے دادا مفتی غلام مصطفیٰ قاسمی کے شاگرد خاص تھے اس پر ڈیوٹی پر متعین فوجی افسر نے جھنجھلا کر والد ماجد کو اپنے کمرے میں طلب کیا اور کہا مولانا آپ اپنے گھر کا ایڈریس لکھوا دیجئے تاکہ آپ کی میت آپ کے ورثا کے سپرد کی جا سکے۔اس پر والد ماجدکے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری جو طلوع صبح سے کم خوب صورت نہ تھی اور انہوں نے کہا آپ مجھے موت سے ڈراتے ہیں حالانکہ آپ میری زندگی کا ایک لمحہ بھی کم یا زیادہ نہیں کر سکتے۔(جاری ہے)

تازہ ترین