کراچی، بدترین حالات کا شکار ہے۔ سڑکوں پر بے قابو اور قاتل ڈمپروں کی تیز رفتاری نے درجنوں شہریوں کی جان لے لی ہے، اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہر دوسرے دن ایک نئی زندگی ڈمپر کے نیچے کچلی جاتی ہے، مگر انصاف کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو نہ صرف ریاست کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ حکمرانوں کی بے حسی پر بھی مہر ثبت کرتا ہے۔
کراچی میں ڈمپر ایسے دندناتے پھرتے ہیں جیسے ان پر کوئی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔ ان کی تیز رفتاری اور بغیر کسی روک ٹوک کے سڑکوں پر دوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شہری خطرے میں ہے۔ یہ ڈمپر اکثر ناتجربہ کار، کم عمر یا نشے میں دھت ڈرائیوروں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی حادثہ ہو جائے، تو ڈرائیور موقع سے فرار ہو جاتا ہے، اور معاملہ چند دنوں میں دب جاتا ہے۔ پولیس، ٹریفک حکام اور متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، گویا شہریوں کی زندگیاں بے وقعت ہوں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کو تحفظ فراہم کرے، اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہے، تو کم از کم ان متاثرہ خاندانوں کو مالی مدد فراہم کرے۔ ہر جان قیمتی ہےاور جو لوگ قاتل ڈمپروں کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے، انکے خاندانوں کو کم از کم ایک کروڑ روپے فی کس بطور معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ یہ کوئی خیرات نہیں، بلکہ حکومت کی ناکامی کا ازالہ ہو گا۔ مگر یہاں تو الٹا مرنے والوں کے ورثا کو تھانے، عدالتوں اور دفاتر کے چکر لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کراچی کا مقدمہ لڑنے کیلئے کبھی گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی آواز سنائی دیتی ہے جو خود آئینی طور پر بے اختیار ہیں یا پھر جے ڈی سی کے ظفر عباس کی جس کی کراچی کے مظلوموں کیلئے آواز اٹھاتے اٹھاتے اپنی زندگی کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں ، لیکن سندھ حکومت خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔
کراچی کی ٹریفک پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مسئلے کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ وہ جو کام کرنے کیلئے مقرر کیے گئے ہیں، وہی اپنے فرائض سے غفلت برت رہے ہیں۔ ٹریفک پولیس رشوت لے کر ڈمپروں کو کھلی چھوٹ دیتی ہے، ڈرائیورز بغیر لائسنس اور فٹنس سرٹیفکیٹ کے گاڑیاں چلاتے ہیں، ٹریفک قوانین پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا اور حادثے کے بعد ذمہ دار ڈرائیور کو چند دنوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹریفک پولیس کو جدید ٹیکنالوجی اور سخت نگرانی کے تحت لائے، اور اگر کوئی افسر کرپشن میں ملوث پایا جائے تو اسے فوری معطل کیا جائے۔اگر قاتل ڈمپروں کو روکنا ہے تو چند فوری اور سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے، ڈمپروں کا دن کے وقت سڑکوں پر آنا مکمل طور پر بند کیا جائے۔ ڈرائیورز کیلئے سخت تربیت اور جدید مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرایا جائے۔ ہر حادثے کے ذمہ دار ڈرائیور اور مالک کو سخت قانونی سزائیں دی جائیں۔ ٹریفک پولیس اور متعلقہ اداروں کی مکمل صفائی کی جائے اور کرپشن میں ملوث افسران کو برطرف کیا جائے اور متاثرہ خاندانوں کو فی الفور مالی امداد اور انصاف فراہم کیا جائے۔ ڈمپروں کا مسئلہ تو ایک پہلو ہے، حقیقت یہ ہے کہ کراچی مجموعی طور پر بدترین زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ سڑکیں کھنڈر بن چکی ہیں، پانی نایاب ہو چکا ہے، گیس کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے، تعلیم کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے اور غربت و بے روزگاری عروج پر ہے۔ یہ تمام مسائل اس بات کا ثبوت ہیں کہ کراچی کو حکمرانوں نے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ یہاں کا شہری ہر وقت پریشانیوں میں گھرا رہتا ہے، مگر اس کے مسائل حل کرنے والا کوئی نہیں۔ کراچی کے شہریوں کو مزید ظلم و زیادتی کا نشانہ نہیں بننے دینا چاہیے۔ قاتل ڈمپروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور اگر حکومت اس میں ناکام رہتی ہے، تو عوام کو اپنی آواز بلند کرنا ہو گی۔ یہ وقت ہے کہ حکمرانوں سے سوال کیا جائے کہ کیوں شہریوں کی زندگیاں اتنی سستی ہو چکی ہیں؟ کیوں قاتل ڈمپر آج بھی سڑکوں پر آزاد گھوم رہے ہیں؟ کیوں ٹریفک پولیس کرپشن میں ملوث ہو کر شہریوں کو مرنے کیلئے چھوڑ چکی ہے؟ کیوں کراچی بنیادی سہولیات سے محروم ہو چکا ہے؟ اگر اب بھی ان مسائل پر توجہ نہ دی گئی، تو وہ وقت دور نہیں جب کراچی مکمل طور پر ایک برباد شہر میں تبدیل ہو جائے گا، جہاں قانون، انصاف اور بنیادی حقوق صرف کتابوں میں درج رہ جائیں گے۔