• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ دنوں سے نقوش کا آپ بیتی نمبر زیر مطالعہ ہے ۔یہ آپ بیتی نمبر کسی شاہکار سے کم نہیں۔ اس کے مندر جات اتنے قیمتی ہیں کہ دہائیوں کے بعد آج کے دور کے قارئین کے لیے اس میں معلومات کا بیش بہا خزانہ ہے یہ خزانہ انارکلی کی پرانی کتابوں کی دکان سے بڑے بھائی جان کی لائبریری تک پہنچا اور وہاں سے میرے ہاتھ لگا اس خزانے کی چکا چوند دیکھ کر میں نے اسے واپس نہ کرنے کا فیصلہ اسی وقت ہی کر لیا تھا سو اب یہ خزانہ میری ملکیت میں ہے۔ نقوش کا یہ آپ بیتی نمبر 1964 میں شائع ہوا اردو ادب کے ادبی جریدوں کی تاریخ میں نقوش کو سر بلند مقام حاصل ہے ہمارے حصے میں نقوش کے تازہ شمارے تو نہیں آئے لیکن جب کبھی پرانے شمارے نظر سے گزرے تو اس کے معیار کا دل ہی دل میں اعتراف کرنا پڑا۔ یہ آپ بیتی نمبر کئی لحاظ سے حیران کن ہے اور مدیر کے اس کڑے معیار کی دلیل بھی ہے جس کی وجہ سے آج بھی کوئی ادبی رسالہ نقوش کا ہمسر نہیں۔ اس دور میں جب ذرائع ابلاغ کے انداز پرانے تھے اور رابطے کرنے مشکل ہوا کرتے تھے نقوش کے مدیر محمد طفیل کس طرح بیرون ملک کی نامور شخصیات سے رابطہ کر کے انہیں خطوط لکھ کر انہیں آپ بیتی نمبر کے لیے اپنی آپ بیتی بھیجنے پر آمادہ کرتے تھے۔ ایک جھلک ملاحظہ کیجئے اور پھر اس وقت کے ادبی جریدے کے معیار کا اندازہ لگائیے مجھے یقین ہے کہ آپ بھی میری طرح حیران رہ جائیں گے اس ضخیم جریدے کی یہ پہلی آپ بیتی ہسٹوریکل فکشن لکھنے والے ممتاز امریکی ناول نگار ہرمن ووک کی ہے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں اپنے مشہور ناول لکھے ان پہ ایک ناول پر پولٹزر پرائز بھی مل چکا ہے۔ آپ بیتی کے آغاز پر محمد طفیل کے نام ہرمن ووک کا خط ہے ’’ڈیئر مسٹر طفیل خط کا شکریہ۔ لیجئے تین چیزیں بھیج رہا ہوں۔ میری سوانح حیات جو میرے پبلشروں نے لکھی ہے میری تصویر جس پر میرے دستخط ہیں اور اپنی مختصر سی سوانح جو میں نے خود لکھی ہےامید ہے آپ کی فرمائش پوری ہو جائے گی۔ آپ بیتی نمبر جیسے مشکل کام کی تکمیل میں آپ کی کامیابی کے لیے دعا گو، مخلص ہرمن ووک۔‘‘ اگلی آپ بیتی امریکی صدر آئزن ہاور کی ہے۔ نقوش کے ایڈیٹر محمد طفیل کے نام امریکی صدر کے ایگزیکٹو اسسٹنٹ رابرٹ ایل خط میں لکھتے ہیں۔ ’’ڈیئر مسٹر محمد طفیل آپ کے 18ستمبر کے خط کے مطابق جنرل ہاور نے اپنی سوانح حیات اور تصاویر بھیجنے کیلئے کہا ہے دونوں چیزیں آپ کے جریدے نقوش کے خاص نمبر کیلئے بھیج رہا ہوں۔ اسے دوسری عالمی شخصیات میں شامل کر لیجیے، جنرل سلام کہتے ہیں۔‘‘ اندازہ لگائیں کہ پاکستان میں شائع ہونے والے ایک ادبی جریدے کی باز گشت امریکی صدر کے ایگزیکٹو آفس تک بھی پہنچتی ہے۔ یہ ہے اس دور کے ادبی جریدے نقوش کا معیار، خطوط کی ترسیل کا نظام بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ستمبر میں لکھا گیا خط سات سمندر پار امریکہ پہنچتا ہے اور اس کا جواب یکم اکتوبر کو لکھا جا رہا ہے۔ نقوش کے اس نمبر میں 158 شخصیات کی آپ بیتیاں اکٹھی کی گئی ہیں ان 158شخصیات کے نام لکھنے لگوں تو کالم کی جگہ کم پڑ جائے گی لیکن فہرست کی ایک جھلک ضرور آپ تک پہنچنی چاہیے۔ ہرمن ووک، آئزن ہاور، نور الدین محمد جہانگیر، محمد رضا شاہ پہلوی، فرح دیبا، رشید احمد صدیقی، مجنوں گورکھپوری، عصمت چغتائی، شاہد احمد دہلوی، غلام جیلانی برق، خدیجہ مستور، جان کیٹس، امیر مینائی، مجید لاہوری، قرۃ العین حیدر، میرزا ادیب، چرچل، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی، جارج برن شاہ، ابوالکلام آزاد، ٹیگور خواجہ حسن نظامی، سمجھیے کہ دیگ میں سے چاول کے چند دانے ہیں۔ بادشاہوں سلاطین ولی اولیاء کی مختصر سوانح عمریاں مختصر مگر جامع انداز میں تلخیص کی صورت شمارے کا حصہ ہیں۔ کئی شخصیات نے مدیر نقوش کی فرمائش پر ہی اپنی زندگی کی کہانی لکھی۔ جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی تحریر میں کیا۔ اس سے اس دور کے ادبی جریدے کے ایڈیٹر محمد طفیل کی محنت اور تخلیقی مشقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ابھی تک کے مطالعے میں برطانوی شاہی خاندان کے روایت شکن بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کی آپ بیتی مجھے بہت پسند آئی جنہوں نے امریکی خاتون سے محبت اور شادی کیلئےتخت و تاج کو ٹھکرایا، برطانیہ کو الوداع کہا اور ایک عام شہری کی حیثیت سے بقیہ زندگی گزاری۔ وہ آپ بیتیاں جو مختلف شخصیات نے نقوش کے مدیر کی فرمائش پر لکھیں ان سب کا انداز مختلف ہے۔ مدیر نقوش نے آپ بیتی لکھنے کی کوئی آؤٹ لائن نہیں دی کہ اپنی زندگی کی کہانی کو اس پیرائے میں لکھنا ہے اس لیے ہر شخصیت نے اپنے انداز میں اپنی زندگی کو دیکھا۔ کچھ شخصیات نے زندگی اور موت کی انتہاؤں، وقت کے ہیر پھیر میں انسان کی بے بسی اور کم حیثیتی کے حوالوں سے اپنی زندگی پر ایک فلسفیانہ نظر ڈالی اور کچھ نے بہت سیدھے انداز میں اپنی پیدائش، تعلیم ،شادی، ملازمت کی سرخیوں کے ساتھ اپنی زندگی کو بیان کیا۔ آپ بیتی لکھنے کی فرمائش کو قرۃ العین حیدر نے گویا ایک مسکراہٹ سے ہوا میں اڑا دیا، ایک ہلکی پھلکی تحریر جس کے آخر میں لکھا کہ سوانح عمری تو مولانا مودودی اور رعنا لیاقت علی خان جیسی شخصیات کی ہوتی ہیں ہم جیسے لوگوں کی تو بس زندگیاں ہوتی ہیں۔ کم و بیش ساڑھے سترہ سو صفحات پر مشتمل نقوش کا یہ ادبی جریدہ محض جریدہ نہیں ایک ادبی شاہکار ہے بلکہ ایک تاریخ اور گزرے ہوئے وقت کی قیمتی بازگشت ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے گزشتہ زمانوں کے سفر پر گئے ہوں اور ایسی باکمال ہستیوں سے ملاقات ہوئی جنہیں میں اس سے پہلے نہیں جانتی تھی۔ نقوش آپ بیتی نمبر کے اس خزانے کی کھدائی ابھی جاری ہے ہر روز میرے ہاتھ بہت قیمتی نوادرات آتے ہیں۔ اس سے ایک تو کیا کئی کالم کشید کیے جا سکتے ہیں جو انشاء اللہ آنے والے وقت میں سامنے آتے رہیں گے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین