• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خان صاحب پہلے جو بائیڈن کی ٹیلی فون کال، محبت نامے کا انتظار کرتے کرتے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب تمام تر کوششوں کے باوجود ٹرمپ سے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لئے بڑے صاحب کے نام جذبہ خیر سگالی کا پیغام بذریعہ بغیرڈاک ٹکٹ خط لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ خط کے لفافے پر کسی ڈاک خانے کا اتا پتہ لکھا نہ کسی شہر کا حوالہ دیا۔ ایسے بغیر ٹکٹ خط کبھی منزل پر نہیں پہنچتے اوراکثر اس عنوان کے ساتھ واپس لوٹا دیئے جاتے ہیں کہ آپ کا پتہ درست نہیں۔ دور جدید میں خطوط یا پیغامات بذریعہ واٹس ایپ لکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے کہ برق رفتاری سے محبوب و مطلوب کے نام پیغامِ محبت محفوظ اور بروقت پہنچ سکے۔ خان صاحب کو کون سمجھائے کہ جنگ سیاسی ہو یا حادثاتی شکست کے بعد یاد آنے والا ہتھیار کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا اور اکثر اپنے خلاف ہی استعمال ہوتا ہے۔ مذکورہ شہرت یافتہ خط کس پوسٹ آفس کے لیٹر بکس میں ڈالا گیا؟ موصول اور تائید کنندہ سب انکاری ہیں۔ ”پاکستان پوسٹ“ نے تو صاف انکار کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ وہ ایسے کسی خط کی سپردگی و حوالگی کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اب اللہ جانے یا خط لکھنے والا، آخر یہ خط لکھا بھی گیا ہے کہ نہیں جبکہ لکھنے والا برملا اقرار کر رہا ہے کہ اس نے اپنے محبوب کو پیغام محبت بھیجا ہے۔ مرشد کی کہی بات سے انکار تو ممکن نہیں‘ قصہ مختصر جیل کی چار دیواری میں لکھے گئے خط کی حقیقت کو پرکھنے کیلئے سپرنٹنڈنٹ جیل کا یہ کہنا کہ یہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ جیل کے قواعد و ضوابط ایک سزا یافتہ قیدی کو ایسا کوئی خط لکھنے کی سہولت فراہم نہیں کرتے۔ قیدی کی ہر نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ کاغذ، پنسل کی فراہمی، جیل انتظامیہ ہی کرسکتی ہے۔ کوئی تحریر لکھے تو اس کے مندرجات کو باقاعدہ سنسر کیا جاتا ہے تو پھر کس کبوتر نے یہ خط ہواؤں کے دوش پر نامعلوم منزل پر گرا دیا؟۔ شاعر یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ اکثر عاشق موسم بہار میں سہانے خواب دیکھتے ہیں۔ بچھڑی محبت انہیں اداس اور بے چین کرتی ہے۔ وہ مچل مچل کر دوبارہ اسی محبت کو پانے کی جستجو کرتے ہیں۔ مطلوبہ عاشق موسم بہار میں خزاں کے آنے سے خوف زدہ ہے۔ اسی لئے تو نوحے لکھنے پر مجبور ہے۔ وہ دیوانہ وار محبوب کی یاد میں آنسو بہا رہا ہے۔ اسے ہر آنے جانے والے ملاقاتی میں اپنے محبوب کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ موصوف وقت گزاری کیلئے ملاقاتیوں کو روٹھی محبت کی داستانیں سناتے ہیں، کبھی کبھی امید بَرآنے کے ترانے بھی گنگناتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جو ایک بار بچھڑ کر کسی اور کا ہوگیا وہ دوبارہ اس کا نہیں ہوسکتا۔ محبت کی اس ہوائی داستان میں کچھ بھی تصور میں آسکتا ہے۔ زمانے کے ناگہانی حادثات کھوئی محبت کو واپس لوٹنے پر مجبور تو کر سکتے ہیں مگر اس موقع پر ملکہ ترنم نورجہاں کا یادگار گیت یاد آتا ہے۔ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔ خان صاحب نے محبت اور جنگ میں سب جائز ہے اصول کے تحت حکومت‘ اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دراڑ ڈالنے کیلئے ایک نیا شوشہ چھوڑ کر دنیا کی توجہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ میڈیا پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ حکومتی نمائندے تابڑ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ ایسی بحث چھڑی ہے کہ سیاست دان فتح و شکست پر نت نئے خیالات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومتی ترجمان ان وضاحتوں میں اُلجھ رہے ہیں کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں۔قیدی نمبر804کی بے بسی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ انہیں خط میں براہ راست آرمی چیف کومخاطب کرناپڑا۔ جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہداءکی قربانیوں کا اعتراف ہے تو دوسری طرف اصلاح احوال کے مشورے بھی دیئے گئے ہیں۔دراصل لاپتہ خط کا مقصد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایسی بحث چھیڑنے کی سازش ہے جس میںاُلجھ کر کوئی ایسا سوال اٹھے کہ ایک صفحے کی کہانی ختم ہو جائے۔ ایسی کامیاب و ناکام کوششیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ قیدی نمبر804 بھی یہی فارمولا آزما رہے ہیں۔ لاپتہ خط اور اس کے مندرجات کی تصدیق صرف وہی کررہے ہیں کوئی اور نہیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنے کئے پر پشیمان اور نادم ہیں۔ ہر لمحہ کروٹ بدلتی سیاسی صورت حال میں خود کو تنہا محسوس کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر کرچکے ہیں اور اپنی رہائی کی اپیل کر رہے ہیں۔ انہیں پارٹی کی مکمل سپورٹ مل رہی ہے نہ ہی عوام پہلے جیسی گرم جوشی دکھانے کو تیار ہیں۔ فارم 47والی وفاقی و پنجاب حکومتیں اپنی معاشی و ترقیاتی کارکردگی سے ان کے گلے پڑ چکی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں اتحادی حکومت کو عالمی سطح پر مکمل پذیرائی مل رہی ہے۔ مہنگائی کم ترین سطح پر آ چکی ہے‘ کھیلوں کے بین الاقوامی میدان سج رہے ہیں‘ اتحادی حکومت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں‘ وزیر اعظم شہباز شریف مولانا فضل الرحمان کو رام کرنے کی کامیاب کوششیں کر رہے ہیں۔ اپوزیشن ہر معاملے میں حکومت کے ساتھ درپردہ تعاون کر رہی ہے۔ پارلیمان اپنی من مرضی کی قانون سازی کر رہی ہے اور پی ٹی آئی کے اراکین 35کروڑ روپے کی تنخواہوں و مراعات کے عوض پارلیمنٹ میں صرف شور شرابہ، ہنگامہ آرائی کی صورت اپنا کمزور کردار دکھا رہے ہیں۔ پنجاب کی ترقی عثمان بزدار جیسوں کا منہ چڑا رہی ہے، سیاسی عدم استحکام پھیلانے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ ایسے میں خط و کتابت کوئی بُری بات نہیں مگر خط پر تصدیقی ڈاک ٹکٹ، درست اتا پتہ ہونا پڑھے لکھے سمجھ دار انسان کی نشانیاں ہیں جو اس معاملے میں دور دور تک نظر نہیں آتیں۔

تازہ ترین