• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چاول کی اقسام میں باسمتی کو منفرد حیثیت حاصل ہے اور پاکستان جو اس کی پیداوارمیں اپنا ثانی نہیں رکھتا ،اس کی ایکسپورٹ سے کثیرزرمبادلہ حاصل کرتا چلا آرہا ہے، عالمی منڈی میںاسے بھارتی سازشوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔حالیہ دنوں میں دونوں کے درمیان باسمتی چاول کے حق ملکیت پر تنازع شدت اختیار کرگیا ہے۔نئی دہلی حکومت دعویدارہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کے چاول کو (باسمتی) تسلیم کیا جائےتاکہ اپنی اجارہ داری جتاسکے۔لیکن اسےپاکستانی مزاحمت کا سامنا ہے ،2020میں برآمد کنندگان نےپاکستانی کسانوں اور قومی خزانے کواربوں روپے کے نقصان سے بچانے کیلئے یورپی یونین میں باسمتی چاول کے جغرافیائی اشاریوں پر بھارتی دعوے کو باضابطہ طور پر پر چیلنج کرکے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کیا تھا اور عدالت نے باسمتی چاول کو پاکستان کی شناخت و پیداوار قرار دیا تھا۔ بھارت نے اسے چیلنج کرتے ہوئے ،دو ماہ قبل یورپی عدالت میںباسمتی چاول کے حقوق حاصل کرنےکی نئی درخواست دائر کی ہے،جسے کسی طور نظرانداز نہیں ہونا چاہئے۔پاکستان میںسیالکوٹ، نارووال،شیخوپورہ،گجرات،گوجرانوالہ،منڈی بہاؤالدین اور حافظ آباد کے اضلاع باسمتی چاول کی پیداواراور معیار کے لحاظ سے تاریخی حیثیت کے حامل چلے آرہے ہیںاور سرحد پار مشرقی(بھارتی)پنجاب جو چاول پیداکرتا ہے،وہ بھی اسےباسمتی کا نام دیتا ہے،حالانکہ اس کا منبع شیخوپورہ اور لاہور کے نزدیک واقع چاول کا تحقیقی مرکزہے ۔خوشبو اور منفرد ذائقے کی بدولت دنیا بھر میں جہاں باسمتی چاول کی مانگ میں اضافہ دیکھا جارہا ہے،وہیں اس کی شناخت قائم رکھنے اور پیداوار میں اضافے کیلئے حکومت پاکستان کوخاطرخواہ اقدامات بروئے کار لانے اور قانونی جنگ میں پاکستان کا مقدمہ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے لڑنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین