• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصے پہلے ایک خاتون برطانوی صحافی، محقق اور تاریخ دان ’’ایلائیس البینیا‘‘ نے دریائے سندھ کے بارے میں ’’پانچ کروڑ سال پہلے گمشدہ دریا‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے دریائے سندھ سے ملحق ممالک میں دریائے سندھ کا معائنہ کرنے کے بارے میں تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ میں اس کالم میں دریائے سندھ کے بارے میں اس کتاب میں بیان کی گئی تاریخ سے کچھ اقتباس پیش کررہا ہوں مگر اس سے پہلے میں اس کتاب کی مصنف کا مختصر تعارف کرانا چاہتا ہوں۔ مس البینیا 1976 ء میں لندن میں پیدا ہوئی‘ اس نے انگریزی ادب کی تعلیم کیمبرج یونیورسٹی سے اور ساتھ ایشیا کی تاریخ کے بارے میں ڈگری ایس او ای ایس (SOES) سے حاصل کی،اس دوران اس نے دہلی میں دو سال تک صحافی اور ایڈیٹر کی حیثیت میں کام کیااورانڈیاکے دیگرشہروں، افغانستان، پاکستان اور تبت کا سفر کیا اور اپنی پہلی کتاب ’’ایمپائرز آف انڈس‘‘ (دریائے سندھ کی سلطنتیں) پر کام کیا‘ اس کی یہ کتاب مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسے اس کام پر جیورڈ کی طرف سے ایوارڈ دیا گیا۔ اس کتاب کی مصنف نے دریائے سندھ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ایشیا میں ایک ایسا میدانی علاقہ ہے جس کےاطراف بڑے پہاڑوںکے درمیان بند باندھ کر اور بڑے دروازے لگاکر پانی کی ساری کینالز ’’ایک بادشاہ‘‘ نے بند کرادیں‘ اس وقت سے پانچ قومیں جو اپنی زراعت دریا کے پانی پر کرتی تھیں ، سخت پریشان ہیں اور بدحالی کا شکار ہیں۔ ’’یہ بادشاہ‘‘ یہ دروازے تب تک ہٹانے کا حکم نہیں دیتا جب تک اسے استعمال ہونے والے پانی سے حاصل ہونے والی رقم سےزیادہ رقم حاصل نہیں ہوتی۔ البینیا اس کتاب میں اپنے سفر کاتعارف کراتے ہوئے بتاتی ہے کہ وہ علاقہ جہاں بارش بہت کم پڑتی ہیں وہاں دریا کی حیثیت سونے سے کم نہیں ہے۔ پانی تخلیق کی قوت رکھتاہے اورانسانی خوابوں کا سہارا ہوتاہے دریا یہاں زندگی کی پہچان ہوتاہے اورزراعت کی بنیادہے۔ پانی مذہب اورجنگ کا سبب بھی بنتاہے‘ جیسے ہی پہلے قدیم افریقی باشندے ’’ہومو سیپنز نے‘‘ ہجرت کی تو دریائے سندھ کے کنارے فاتحین کی آماجگاہ بن گئے اوراس طرح دنیا کے اوائلی (Earliest)شہروں نے جنم لیا اوروہاں تعمیرات شروع ہوگئیں۔بھارت کاقدیم سنسکرت ادب دریاؤں کے بارے میں ہی ہے پھراسلام کے مبلغ ان پانیوں کے کناروں پر نمودار ہوئے۔ اس طرح پاکستان ’’سندھو سبھیتا‘‘ کا نیا مالک ہوا۔ ایلا ئیس البینیا نے اس کتاب میں دریائے سندھ کے اپنے سفر کاذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ وہ سب سے پہلے دریائے سندھ کے کنارے پر تعمیر شدہ شہر ‘علی‘ پہنچی جو چینیوں نے مغرب میں تبت کیلئے ہیڈکوارٹر کے طورپر قائم کیاتھا۔ اس شہر کو ’’شیکوان ہی‘ کہاجاتاہے جو دریائے سندھ کا چینی نام ہے جبکہ دریائے سندھ کا تبتی نام ’’سنگی کباب‘‘ ہے یہ شہر لداخ میں ہے جہاں میں نے کھڑے ہوکر دریائے سندھ کا آخری نظارا کیاہے۔یہ شہر وہاں سے دو سو کلو میٹر دور مشرق میں واقع ہے۔ برطانوی صحافی اور محقق نے اس سفر کے جائزےکے بارے میں کتاب میں مزید لکھاہے کہ تاریخ کے ان حقائق کے بارے میں مزید تحقیق کرنے کیلئے وہ آخر پاکستان پہنچی۔ پاکستان گزشتہ 60 سال کے دوران فوجی آمریتوں کے قبضے میں رہاہے۔ریاست کو مذہب کی غلط تشریح کرکے گمراہ کیاگیاہے اور اب یہ ملک مغرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں دہشت گردی کاشکار ہے۔ سندھ ڈیلٹا جو سیاست ‘مذہب اور ادب کی تاریخ کاتسلسل ہے۔ یہ تاریخ صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے جس میں تبت اور بھارت بھی حصہ دار ہیں۔میں سندھ ڈیلٹا کی اس تاریخ کی تلاش کررہی ہوں اوریہ مقصد حاصل کرنے کیلئےمجھے دریائے سندھ کے کنارے کاسفر کرکے وہاں کے لوگوں سے ان کے تاریخی ورثہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنی ہیں۔ مجھے اس کی تلاش میں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کابھی سفر کرناہے۔ دریائے سندھ جس نے کراچی میں پاکستان کو جنم دیا اس نے ہزاروں سال پہلے تبت سے اپناسفر شروع کیا ۔ اس سفر کے دوران دریائے سندھ کوکئی ناموں سے یاد کیاجاتاتھا۔ یہ نام یقینی طورپر آمروں کے ناموں سے زیادہ خوبصورت ہیں۔سندھ میں دریائے سندھ کو ’’پورالی ندی‘‘ (رخ تبدیل کرنے والا دریا) بھی کہاجاتاہے کیونکہ میدانی علاقے میں داخل ہونے کے بعد یہ دریامتعدد مقامات پر اپنا رخ تبدیل کرتا ہے ۔ میدانی علاقے میں دریائے سندھ کی اپنی مرضی چلتی تھی ،یہاں کے لوگ دریائے سندھ کو سمندر بھی کہتے تھے۔یہ نام دریائے سندھ کو اس کی وسعت سے ملا۔یہ دریا Deltasاور تہذیبوں کو جنم دیتارہاہے۔ افغانستان کے نزدیک علاقے خیبر پختونخوامیں اس کانام ’’نیلاب‘‘ بھی ہے۔ اس دریا کے پانی کارنگ نیلا ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں دریائے سندھ کایہ نام پڑا۔دریائے سندھ کو کچھ علاقوں میں ’’شیر دریا‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتاہے۔علاوہ ازیں دریائے سندھ کو ’’اباسین‘‘ (دریا کے باپ )کابھی خطاب ملا ہواہے۔ پہاڑی علاقوں میں پانی کے بہا?ؤکے دوران لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں اورمختلف مذہبوں کے پیروکار ہیں۔ اس وجہ سے اس کے نام بھی مختلف ہیں۔بلتی دریائے سندھ کو ’’گیمتش‘‘ یعنی عظیم سیلاب اور ’’سوفو‘‘(Tsal fo)یعنی دریا کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔لداخ اورتبت میں اسے ’’سنگی نامپو‘‘(Sangi Tsanpo)یعنی شیر دریا کے نام سے یادکیاجاتاہے۔ اس وقت تقسیم اور سرحدی چوکیاں قائم ہونے کی وجہ سے اس دریا کے لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیاگیا ہے۔ مگر اس کے باوجود ان لوگوں کے قدیم تعلقات اب بھی برقرار ہیں۔ اس دریا کی پراسراریت نے مجھے دریائے سندھ کے سفر پرتیار کیا۔ یہی دریا ہے جو اس علاقے کے باشندوں کی دلجوئی کرنے کی حیثیت رکھتا ہے،لوگ صحراؤں سے تبت کے پہاڑوں تک جاری اس دریا کی ’’پوجا ‘‘ کرتے ہیں اور شاعر دریائے سندھ کی مدح سرائی میں مصروف ہیں۔ اتنی مدح سرائی کسی دیوتا یا سیاستدان کی بھی نہیں کی جاتی جتنی دریائے سندھ کی جاتی ہے۔

تازہ ترین