اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس انکوائری کمیشن نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کو نسل کشی قرار دے دیا۔
اقوامِ متحدہ کے انکوائری کمیشن نے فلسطین کی صورتحال پر تازہ رپورٹ پیش کی ہے۔
جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں ہونے والے ہولناک جرائم کی ذمہ داری وزیرِ اعظم نیتن یاہو، صدر اور سابق وزیرِ دفاع سمیت اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز اسرائیلی حکام پر عائد ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ میں نسل کشی کے اقدامات اس ارادے کے ساتھ کیے گئے کہ فلسطینیوں کو ایک گروہ کے طور پر تباہ کیا جائے، اکتوبر 2023ء سے اسرائیلی افواج نے گھروں، شیلٹرز اور محفوظ علاقوں میں شہریوں پر بمباری کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی بمباری میں نصف سے زیادہ خواتین، بچے اور بزرگ مارے گئے، فلسطینیوں کو تشدد، جبری بےدخلی اور ثقافتی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خوراک، پانی، بجلی اور طبی امداد بند کر دی گئی ہے اور فلسطینیوں کو بھوکا رکھا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے آزاد بین الاقوامی کمیشن برائے انکوائری کی سربراہ ناوی پیلئی کا کہناہے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ غزہ میں نسل کشی مسلسل جاری ہے جس کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔
اِن کا کہنا تھا کہ یو این انکوائری کمیشن بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، اب تک ہزاروں معلوماتی شواہد شیئر کیے جا چکے ہیں، عالمی برادری اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی مہم پر خاموش نہیں رہ سکتی، اسے روکنے کے لیے کوئی اقدام نہ کرنا دراصل شریکِ جرم ہونے کے مترادف ہے۔
دوسری جانب جنیوا میں اسرائیلی سفیر نے یو این انکوائری رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے شرمناک اور جعلی قرار دیا ہے۔