• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک روز ایک باپ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بیٹا! زندگی میں کبھی بھی بہترین کھانا کھانے، بہترین بستر پر سونے، اور بہترین گھر میں رہنے سے دست بردار نہ ہونا۔‘‘ بیٹے نےحیران ہو کر پوچھا، ’’ابّا! یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم تو غریب لوگ ہیں اور یہ امیروں کے چونچلے ہیں۔‘‘ 

باپ، بیٹے کی معصومیت پر مُسکراتے ہوئے بولا، ’’بیٹا! یہ سب اتنا بھی مشکل نہیں، جتنا تم سمجھ رہے ہو، کیوں کہ جب تم بُھوک سے نڈھال ہو کر اپنی حلال کمائی کا کھانا کھاتے ہو، تو وہی تمہارا بہترین کھانا بن جاتا ہے۔ جب تم دن بھرکی سخت محنت و مشقّت کے بعد تھک ہار کر سونے لیٹتے ہو، تو تمہیں اپنا بستر دُنیا کا سب سے آرام دہ بستر لگتا ہے۔ اور جب تم لوگوں سے شفقت و محبّت سے پیش آتے ہو، تو اُن کے دِلوں میں تمہارے لیے محبّت وعزّت پیدا ہوتی ہے اور پھر وہی دل تمہارا بہترین گھر بن جاتے ہیں۔‘‘

پھر باپ نے اپنی بات سمجھانے کے لیے بیٹے کو ایک مثال دی کہ ’’دیکھو بیٹا! ایک مزدور دِن بَھر پتّھر توڑتا ہے اور شام کو خُشک روٹی کھاتا ہے، مگر وہ روٹی اُسے شاہی دستر خوان کے پکوانوں سے زیادہ بہتر لگتی ہے، کیوں کہ وہ اُس کی محنت کی کمائی کی ہوتی ہے اور اسے کھا کر اُسے تسکین ملتی ہے۔ 

اسی طرح لوگوں کے دِلوں میں گھر کرنے سے تمہارے دِل کو جو سکون ملتا ہے، وہ دُنیا کی کسی عالی شان عمارت میں بھی نہیں مل سکتا۔‘‘ بیٹے نے باپ کی یہ نصیحت اپنے دِل میں بٹھالی اور اسے اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا اور پھر اُس نے محسوس کیا کہ حقیقی خوشی اور سکون دولت یا آسائشوں میں نہیں، بلکہ مثبت رویّوں، خوش اخلاقی اور محنت ہی میں پوشیدہ ہے۔

یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، اگر ہم محنت، شُکر گزاری اور ہم دردی کا جذبہ اپنائیں، تو ہر لمحہ اور ہر شے ہمارے لیے ’’بہترین‘‘ بن سکتی ہے۔ (ارم نفیس ، ناظم آباد، کراچی )