فاطمہ شیروانی، ماڈل ٹاؤن، لاہور
رات، جو قصّہ خواں کو بہت محبوب تھی، جس کی چھاؤں میں بیٹھ کروہ قصّے، کہانیاں بُنتا تھا، وہی رات، اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ شہرِ محبّت میں داخل ہو چُکی تھی۔یہ وہ شہر تھا، جہاں دن کے اُجالوں میں محبّت کا سودا اور رات کی تاریکی میں محبّت کا قتلِ عام ہوتا تھا۔شبِ تنہائی کی کالی چادر نے دن کے اُجالے کو اپنے اندر بہت حد تک چُھپا لیا تھا۔ اس چادر میں موجود درد،اذیّت،اُداسی اور تنہائی بھی انگڑائی لے کر مکمل طور پر بیدار ہو چُکی تھی کہ دن کی روشنی میں ان سب کو کُھل کھیلنے کا موقع کہاں ملتا تھا، لیکن رات کے اندھیروں میں تنہائی مُسکراتی، درد قہقہے لگاتا تھا۔
اُس روز رات کے کسی پہر بادلوں نے بھی شور مچانا شروع کر دیا اور بوندوں نے اپنا گیت فضاؤں کے سپرد کر دیا۔وہی گیت، جو قصّہ خواں کو بہت پسند تھا، جسے سُن کر اس کے اندر موجود الفاظ کو باہر آنے کا موقع ملتا تھا۔ جسے سن کر لفظ گویا اس کے آگے قطار باندھے کھڑے ہو جاتے تھے۔اس کی کہانی کے سبھی کردار سہمے ہوئے انداز میں قصّے سُناتے، کہانی کار کے قلم اٹھانے کے منتظر تھے، کیوں کہ رات کا یہ پہر کہانی کار کا تھا، جب وہ کرداروں کو اپنے قلم سے امر کر دیتا تھا۔
کہانی کار نے قلم اُٹھایا اور کرداروں کو آہستہ آہستہ لفظوں کی زبان دینی شروع کر دی۔سب سے پہلے اُس نے حسین ترین کردار لکھے۔یہ وہ کردار تھے، جو معاشرے کا حُسن تھے، جو کہانی کے گہرے رنگوںاور خُوش بُوؤں کا استعارہ تھے۔ ان کے نقوش کسی دوشیزہ کی پلکوں پر تحریر پہلی محبّت کے خوابوں جیسے تھے، جن کا سرور وہ تاعُمر بھول نہیں پاتی۔ کہانی کار بھی وہ کردار لکھتے ہوئے اسی سرور کی کیفیت میں تھا، جن کے لیے اس کے قلم سے کچھ مہکتے ہوئے الفاظ نکلے، جن کی خوش بُو سے کہانی مہکنے لگی، انہیں لکھتے ہوئے وہ مُسکرا رہا تھا۔ انہی کرداروں میں ایک کردار ایسا بھی تھا، جو گرتے ہوؤں کو سنبھالتا، شہرِ محبّت کے رستوں میں حوصلہ تقسیم کرتا تھا۔ اس کردار کو لکھتے ہوئے کہانی کار کو بہت لطف آرہا تھا، جب ہی اس نے اس کا نام ’’زندگی‘‘ رکھ چھوڑا۔
زندگی کہانی میں رنگ بھرتی جارہی تھی، ایک لمحے کو قلم رُکا اور کہانی نویس کو زندگی کے انجام سے خوف آنے لگا، اسے صفحۂ قرطاس پر زندگی کی مُردہ سانسوں کی آوازیں آنے لگیں، مگر ان سب باتوںکو نظرانداز کر کے اس کا قلم ایک بار پھر چلنے لگا۔اب اس کا قلم کچھ بدصُورت کردار لکھنے لگا تھا، جن کے آنے سے کہانی سہم گئی تھی۔ان کرداروں کے تمام تر عذاب اب وہ کاغذ پر منتقل کر رہا تھا، اس کا قلم اب اس کے ہاتھ میں نہیں تھا کہ کردار اپنا راستہ خود بنا رہے تھے اور وہ کرداروں کی چیخیں سُن کر کہانی کو اختتامی موڑ دینے ہی لگا تھا کہ اس کی نظر گھڑی پر پڑی، رات آدھی سے زیادہ گزر چُکی تھی۔
بوندوں کا وہ گیت بھی اب خاموش ہو چُکا تھا۔بادلوں نے الوداعی نقّارہ بجایا، اس نے کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا، ایک لمحے کو توقّف کیا، اپنے قلم کی طرف دیکھا، جو اب رُکنے کو تیار نہیں تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارے بدصُورت کردار دیگر کرداروں سے ایک اچھے موڑ پر ملوا چُکے تھے۔ کہانی کے اختتام پر اس نے تمام کرداروں کو شہرِ محبّت کے پاس لابسایا، لیکن افسوس کہ ایک کردار شہرِ محبت کے دروازے ہی پر مَرا پڑا تھا،جسے کہانی کار ’’زندگی‘‘ کہتا تھا۔