• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُلہن رخصتی کے لیے تیار تھی۔نیک، سادہ لوح باپ نے اُس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’تم کرن ہو،روشنی اور اُجالا بکھیرنے والی،نئے گھر میں اپنےکردار اور عمل سے سب کے دل جیت کر ہر سُو اُجالے ہی اُجالے بکھیر دینا۔‘‘ کرن نے رندھے گلے سے’’جی…‘‘ کہہ کے سر ہلایا اور بابل کی دہلیز پار کر لی۔

نئے گھر میں وہ لاکھ جتن اور کوششوں کے باوجود مضطرب اور بےچین ہی رہتی۔ گھر کی خواتین کےبعض اوقات اخلاق سے گِرے جملے،معنی خیز کُھسر پُھسراور کابُک(دڑبا) نما کمرا…’’یہ کہاں بھیج دیا ابّا نے مجھے؟‘‘ وہ اکثر سوچتی اور پھر خود کو تسلّی دیتے ہوئے کہتی کہ ’’شاید سب ویسا نہ ہو، جیسا مَیں سوچ رہی ہوں۔ شاید ریحان ان سب سے مختلف ہوں۔‘‘ لیکن کئی صبحیں اور شامیں اس کے اندر دَر آنے والے حبس کو بڑھاتی ہی چلی جا رہی تھیں۔گھر میں ساس کی حیثیت ایک مطلق العنان بادشاہ کی سی تھی۔ سُسر اور دونوں بیٹے بس بےبس رعایا کی مانند تھے اور دو بیاہی نندیں گھر کے معاملات میں خوب دخیل تھیں۔ 

ایسے میں کرن کی بھلا کیا وقعت ہوتی، وہ میکے جاتی تو ابّا اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑی آس سے پوچھتے ’’میری بٹیا خوش تو ہے ناں اپنے نئے گھر میں؟‘‘وہ ایک لمحے کو باپ کا جھرّیوں زدہ چہرہ اور آنکھوں کی بجھتی جوت دیکھتی اور کہتی’’ہاں، ابّا! مَیں بہت خوش ہوں، وہاں سب لوگ بہت ہی اچھے ہیں‘‘۔ ’’اچھا بیٹا! اپنی چھوٹی بہنوں کے لیے بھی کوئی مناسب بر ڈھونڈو ‘‘ وہ ثمن اور ایمن کی طرف چپکے سے اشارہ کرتے۔’’ابّا!اُنہیں تعلیم تو مکمل کرنے دیں، ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔‘‘ کرن سمجھاتے ہوئے کہتی۔ابّا بھی کیا کرتے کہ بچیاں چھوٹی تھیں، تو بیوی راہی مُلکِ عدم ہوئیں۔ بیٹا کوئی تھا نہیں، بس جو کرنا تھا انہیں ہی کرنا تھا۔

کرن پوری کوشش کررہی تھی کہ سُسرال میں رَچ بس جائے، گھر کا ماحول اچھا رہے، مگر ساس چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہتّھے سے اُکھڑ جاتیں۔ وہ ملتجی نظروں سے شوہر کی طرف دیکھتی، تو وہ نظریں چُرا لیتا۔کرن کو اپنے کمرے کی طرح سارا گھر ہی کابک نما لگتا۔نہ پھول، پودے، نہ کھڑکیاں اور روشن دان۔ ایک عجیب سی گُھٹن اور حبس کا راج تھا سارے گھر میں۔ وہ سوچتی ابّا نے رشتہ کرنے سے پہلے یہ گھر اور اس کے مکین شاید دیکھے ہی نہیں تھے، ورنہ وہ ضرور جان جاتے کہ اس گھر میں ’’کرن‘‘ تو آہی نہیں سکتی۔ کجا کہ مَیں یہاں اُجالے بکھیروں۔

تیرگی سے مانوس آنکھیں کرنوں کی آمد پر چندھیا جاتی ہیں اور آسانی سے اُجالے قبول نہیں کرتیں۔اس ماحول میں کبھی کبھی اس کا سانس اُکھڑنے لگتا۔ اسے لگتا کہ وہ مر جائے گی۔ ’’ریحان! مجھے کہیں باہر لے چلیں، یہاں میرا دَم گُھٹتا ہے۔‘‘ جب وہ مایوس ہوجاتی تو اپنے شوہر سے کہتی، تو کبھی کبھی ریحان کو اس پر ترس آجاتا اور وہ بہانے سے اسے باہر لے جاتا، مگر مستقل ٹھکانا تو وہی کابک نما گھر ہی تھا۔

کرن اب بیمار رہنے لگی تھی، اسے یوں لگتا تھا کہ اس کے سینے میں دل کی جگہ ٹوٹا ہوا کانچ رکھا ہے،جو ہر وقت چُبھتا ہے اور لہو کہیں اندر ہی اندر رستا رہتا ہے۔میکے بھی کم ہی جاتی کہ ابّا اسے دیکھ کر پریشان نہ ہو جائیں۔ ایک دن وہ کھڑے کھڑے بےہوش ہو گئی، تو ریحان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ فوراً اسپتال لے کر بھاگا، اسے فوری طبّی امداد دی گئی، مگر کرن کی حالت بدستور بگڑتی ہی جا رہی تھی، تو ریحان اسپتال والوں کو کرن کے ابّا کا فون نمبر دے کر وہاں سے بھاگ نکلا۔

ابّا اسپتال پہنچے توکرن ہنوز بےہوش تھی۔کئی گھنٹے بعد اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے ہاتھ کو ایک مہربان ہاتھ میں محسوس کیا۔ یہ ڈاکٹر نیلوفر تھیں۔اکثر مظلوم عورتوں کی بپتا سُنتیں اور زخموں پہ مرہم رکھتیں۔کرن کی کہانی اُن کے لیے کوئی نئی نہ تھی۔جب عورت خود کو خود ہی ایک ارزاں مخلوق سمجھنے لگے، تو پھر اسے ایک جیتے جاگتے انسان کی بجائے، شئے کی طرح برتنے والے لوگوں کا کیا قصور۔ ’’تم کرن ہو اور ہمیشہ ہی رہوگی، کوئی دوسرا تمہاری حیثیت کا تعیّن کر بھی کیسے سکتا ہے۔ بنانے والے نے تمہیں ایک منفرد اور مکمل انسان بنایا ہے، خود کو پہچانو، کائنات تمہاری مٹھی میں ہے۔‘‘

مسیحائی کے ہنر سے واقف وہ ہستی جانے اور کیا کیا کہتی رہی،پھر ابّا اس کے پاس آئے اور اس کی پیشانی پر بوسا دے کر بولے ’’پگلی کہیں کی، باپ سے بھی کبھی دُکھ چُھپاتے ہیں۔ مجھے شک تھا، تبھی تو بار بار پوچھتا تھا کہ ’’تم خوش ہو،‘‘مگر یہ بھی سچ ہے کہ قصور تو میرا ہی ہے۔آخر تم نے کبھی تو محسوس کیا ہی ہوگا کہ تمہارا باپ ایک بزدل انسان ہے، جو بیٹی کی گھر واپسی پر رنجیدہ ہو جائے گا، وہ زمانے کے طعنوں تشنوں کو زیادہ اہمیت دے گا۔ نہیں میری بیٹی، ایسا نہیں ہے۔اگر کوئی تمہیں پہچان نہیں سکا،تمہاری قدر وقیمت نہیں جان سکا، تو اس میں تمہارا کیا قصور؟ تم میرے لیے وہی اُجلی اور پاکیزہ کرن ہو، جس کی بدولت میری آنکھیں روشن اور دل پرنور ہے۔آؤ، چلو گھر چلیں، اپنے گھر…‘‘یہ کہہ کر ابّا اپنی کرن کو واپس لے آئے۔

گھر آکر تو جیسے اُس میں زندگی لَوٹ آئی تھی، اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے گھر میں سب ویسا ہی تھا، جیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ کھڑکیاں،روشن دان، آنگن میں مہکتے پھول، پودے اور…سب سے بڑھ کر ابّا اور بہنوں کی بے لوث محبتیں۔ایک روز چھوٹی بہنوں کو پڑھتے دیکھ کر وہ بھی پاس آبیٹھی اور بولی۔ ’’مَیں بھی تمہارے ساتھ امتحان دوں گی، کیوں کہ ادھوری تعلیم کے ساتھ کرن بھی اُجالے بانٹنے سے قاصر رہتی ہے۔‘‘ بہنوں نے اسے گلے لگایا اور ابّا نے سر پر ہاتھ رکھ کر اُس کے ارادے کی توثیق کر دی۔

سنڈے میگزین سے مزید