• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سلطان عبدالحمید ثانی نے صیہونیوں سے فلسطین کے بدلے 20 ملین پاؤنڈز وصول کیے
سلطان عبدالحمید ثانی نے صیہونیوں سے فلسطین کے بدلے 20 ملین پاؤنڈز وصول کیے

1846ء میں انگریزوں نے وادی جمّوں و کشمیر کو جمّوں کے راجا ڈوگرا گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ علّامہ اقبال نے اس پر اپنے کرب و ملال کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا؎’’دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند…قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔‘‘ ایسا ہی ایک سودا وہ ہوا تھا، جس کے تحت عثمانی خلیفہ، سلطان عبدالحمید ثانی نے فلسطین کو صیہونیوں کے ہاتھ دس ملین پاؤنڈز کے عوض بیچ دیا تھا۔ یہاں پہلے ہم صیہونی تحریک کی قوّتِ خرید کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کیسے خِطّۂ فلسطین کو خریدنے کے قابل ہوئی۔

صیہونیت کا تصوّر سلطان عبدالحمید کے منصبِ خلافت سنبھالنے سے پہلے کچھ زبانوں پر اور دماغوں میں تھا، مگر اسے ایک تحریک کی شکل تھیوڈر ہرزل نے دی۔ ہرزل خود یورپ کے یہود مخالف رویّوں کا ڈسا ہوا تھا۔ وہ ہنگری کے دارالحکومت، بڈاپیسٹ کی ایک اسٹریٹ پیسٹ(Pest)کے ایک امیر گھرانے میں 1860ء میں پیدا ہوا۔ اُس کا والد، جیکب ایک امیر کاروباری آدمی تھا۔پیسٹ کے اکثر رہائشی یہودیوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔

ہرزل جب اسکول میں داخل ہوا، تو وہاں اُس کے ہم جماعتوں کی اکثریت یہود مخالف جذبات رکھتی تھی۔ یہاں سے اُس کا خاندان آسٹریا کے دارالحکومت ویانا (Veinna) منتقل ہوگیا۔ یہودیوں کے لیے کُھلی منافرت کے یہ حالات تھے، جنہوں نے اُس کے ذہن میں صیہونی (Zionist) فکر بہت کم عُمری میں راسخ کی اور اُس کا یہ خیال گہرا ہوگیا کہ یورپ میں سامیت مخالف (Anti-Semitism) رجحانات کو شکست نہیں دی جا سکتی اور اس منفی رویّے سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ یہودیوں کے لیے اپنی ایک الگ ریاست قائم کی جائے۔

جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوا، تو پہلے انجبیئرنگ کی طرف مائل ہوا، لیکن پھر تاریخ اور ادب سے دل چسپی پیدا ہو گئی۔ جرمن شاعر، گوئٹے اور انگریزی شاعر شیکسپیئر کا مداح بن گیا۔ اس نے پہلے وکالت اور پھر صحافت اور ڈراما نگاری میں اپنی صلاحیتیں آزمانی شروع کر دیں۔ نیز، وکالت کے پیشے سے بھی وابستہ رہا۔

ہرزل کے صیہونی تحریک شروع کرنے کے وقت تک پُراسرار یہودی تنظیم فِری میسن نے عثمانی خلافت کے انہدام کے لیے میدان ہم وار کر لیا تھا۔ پہلے وہ سوچتے تھے کہ خلافتِ عثمانیہ کی بقا اور سلطان عبدالحمید ثانی کے اقتدار کی صُورت میں فلسطین میں صیہونی ریاست کا قیام ناممکن ہے۔ ہرزل کا ایک بہت قریبی دوست، فلپ مائیکل ڈی نیولینسکی (Philipp de Newlinnski) استنبول میں آسٹریا کے سفارت خانے میں کسی عُہدے پر کام کرتا تھا۔

اُسی دوست کے توسّط سے اُس نے سلطان عبدالحمید ثانی سے روابط قائم کیے۔تُرکی اُس وقت قرضوں کے بوجھ میں دَبا ہوا تھا اور سلطان کو اِس مالی بحران سے نکلنے کی کوئی تجویز نہیں سوجھ رہی تھی۔ ہرزل نے سلطان عبدالحمید ثانی کی اِس مجبوری کو ایکسپلائٹ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اُس نے پیش کش کی کہ اگر سلطان یہودیوں کی ریاست کے لیے زمین دے دیں، تو اُس کے بدلے سلطنت پر قرض کی ادائی میں تعاون کیا جائے گا۔ اُس وقت تُرکی خلافت پر عالمی قوّتوں کا 11.6بلین ڈالرز یا پاؤنڈ قرض تھا۔

تھیوڈر ہرزل
تھیوڈر ہرزل

یہ گویا ایک طرح کی بلیک میلنگ تھی، لیکن اُس وقت تک سلطان کی غیرت زندہ تھی اور وہ فلسطین کو یوں فروخت کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ سلطان نے تھیوڈر ہرزل کے دوست سے کہا تھا کہ’’ اُنہیں سمجھائیں کہ وہ اِس سلسلے میں کوئی اور قدم نہ اُٹھائیں۔ مَیں اِس سرزمین کا ایک فٹ بھی فروخت نہیں کر سکتا۔ خلافتِ عثمانیہ کی ساری سرزمین ہم نے خون بہا کر لی ہے۔ اب (ہماری مالی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے ہمارا بازو مروڑ کر) یہ سرزمین ہم سے چھیننے کی کوشش کی گئی، تو ہم اِس کے لیے ایک بار پھر خون بہائیں گے۔‘‘

مختلف ذرائع نے تھیوڈر ہرزل کی سلطان سے پانچ ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے، لیکن پانچ ملاقاتوں کی روایت مستند نہیں ہے۔ تاہم، اُن کی پہلی ملاقات جون 1896ء میں ہوئی۔ پھر جب 16 جون 1898ء کو جرمن قیصر، ولیم دوم تُرکی اور فلسطین کے دَورے پر گیا، تو ہرزل نے قیصر کے ذریعے فلسطین کے سودے کے لیے ضرور تعاون کی درخواست کی ہو گی۔ قیصر جب فلسطین گیا، تو وہاں اُسی سال 29 اکتوبر اور 2 نومبر کو قیصر سے اُس کی دو ملاقاتیں ہوئیں۔ ہرزل اپنی زندگی میں ایک بار فلسطین گیا تھا۔

صیہونی ریاست کا منصوبہ پیش کرنے کے بعد وہ صرف سات سال جیا اور 3جولائی1904 ء کو چوالیس سال کی عُمر میں فوت ہوگیا۔ اُس وقت تک اُس کا لگایا ہوا صیہونی تحریک کا پودا تناور درخت بن چُکا تھا اور یہودی خوابوں کے مطابق اُس سے اسرائیلی ریاست کا چمن آباد ہونے کے امکانات واضح ہو گئے تھے۔

دیگر نمایاں ناموں میں، جنہوں نے اُس کے مشن پر کام جاری رکھا، میکس نورڈؤ، ترمیم پسند صیہونیت کا مبلّغ اور آگے چل کر کئی یہودی تنظیموں کا بانی زیوجیبوٹنسکی (Ze'ev Jabotinsky)، صیہونی تحریک کا صدر اور اسرائیل کا پہلا صدر،چیم وائزمین ,(Chaim Weizmann)فلسفی اور مصنّف اشرزوی گنزبرگ(Ahad Ha'am) اور آٹو ایمانسپیشن (Auto Emansipation) کا مصنّف لیوپنسکر(Leo Pinsker) جیسے متعدد زرخیز دماغ اس تحریک کے مختلف پہلوؤں پر سوچتے اور اس کے مقاصد آگے بڑھانے میں مصروف تھے۔

سلطان عبدالحمید ثانی کے مسائل میں صرف سلطنت پر بھاری قرضوں کا بوجھ ہی نہیں تھا بلکہ تُرکی کی حُکم ران اشرافیہ کی بالائی سطح پر یہودیوں سے ہم دردی، سازشیں اور فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی درِ پردہ حمایت بھی ایک مسئلہ تھا۔ سلطان کے وزیرِ اعظم، خلیل رفعت پاشا نے تھیوڈر ہرزل سے ملاقات کی اور اُسے ترکی کے سب سے بڑے سِول ایوارڈ ’’نشان مجیدی عثمانی‘‘ سے نوازا۔ ہرزل کی اِتنی بڑی تکریم اُس کی کِن خدمات کے عوض کی گئی؟ 

یہ سوال اُس وقت بھی لوگوں کے ذہنوں میں تھا اور تاریخ میں بھی درج ہے۔ صیہونی یہودی ہی نہیں بلکہ یورپی اقوام کے لیڈرز بھی یہ جانتے تھے کہ سلطان عبدالحمید ثانی کو مالی مجبوریوں اور اونچے مناصب پر بیٹھی شخصیات کی بے وفائیوں اور زیرِ زمین سرگرمیوں کی خواہ کتنی ہی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے، پھر بھی اُن سے باقی شاید بہت کچھ منوایا جاسکے، لیکن وہ جب تک منصبِ خلافت پر ہیں، فلسطین کا سودا ہر گز نہیں کریں گے۔ لیکن یہ بھی عجیب بات تھی کہ سلطان عبدالحمید ثانی کے منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد چالیس، پچاس ہزار یہودی فلسطین جا کر آباد ہو گئے تھے۔

سلطان عبدالحمید ثانی
سلطان عبدالحمید ثانی

یہودی ریشہ دوانیوں نے سلطنت کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا تھا۔ امپیریل میڈیکل اکیڈمی، استنبول کے کیڈٹ، لبرل اور مغرب نواز طلبہ نے سلطان عبدالحمید کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے سارے کالجز تک پھیل گیا۔ 1906ء میں کئی فوجی یونٹس میں بغاوت پُھوٹ پڑی، جس کا پہلا مقصد سلطان عبدالحمید ثانی کو منصبِ خلافت سے ہٹانا تھا۔ 27 اپریل 1909ء کو پارلیمنٹ کی رسمی توثیق سے سلطان کو منصب سے ہٹا کر اُن کے بھائی محمّد خامس (پنجم) کو تُرکی کا سلطان یا خلیفہ بنایا گیا۔ سلطان کی معزولی کا پروانہ لے کر جو وفد بھیجا گیا، اُس کی ترکیب سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کتنی قوّتیں’’ینگ تُرک تنظیم‘‘ کے پیچھے کام کر رہی تھیں۔

دست یاب معلومات کے مطابق، اُس وفد میں شامل ایک شخص سالوینکا سے تعلق رکھنے والا یہودی وکیل اور فِری میسن تحریک کا رُکن، عمائنویل قرہ صو (Emanuel Karasu)، عثمانی فوج کا ایک جرنیل عارف حکمت پاشا(Arif Hikmet Pasha)، البانی نژاد ایک سیاست دان اسعد طویتانلی (As'ad Toptani) اور آرمینیائی نژاد ایک اور سیاست دان، ارمین ڈوریان (Armen Doryan) تھا۔ ان لوگوں نے سلطان کو معزولی کا ’’فرمان‘‘ سُنایا اور گرفتار کرکے ساللونیکا(قبرص) میں ایک یہودی بینک کار کے گھر نظربند کر دیا گیا۔

غالباً یہ یہودی بینک کار اُن لوگوں میں شامل تھا، جنہوں نے سرزمینِ فلسطین کے بدلے سلطنتِ عثمانیہ کے قرض ادا کرنے کی پیش کش کی تھی۔ کم و بیش چالیس سال اقتدار میں رہنے کے بعد جب سلطان عبدالحمید ثانی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا، تو عثمانی خلافت کی عظمت و شوکت اور ہیبت و جلال بھی ختم ہو گیا۔اب یہ ایک لڑکھڑاتا ہوا ڈھانچا رہ گئی تھی۔

سلطان عبدالحمید ثانی کے عہدِ اقتدار اور اُن کی شخصیت کے بارے میں بے شمار کہانیاں اور افسانے مشہور ہوئے۔ ایک طرف جہاں اُن کی عظمت و شان، مِلّی غیرت، مسجدِ اقصیٰ سے متعلق شدید حسّاسیت اور اُمّتِ مسلمہ کے تین مقدّس ترین مقامات کے تحفّظ کے عزم کے تذکرے کیے جاتے ہیں، وہیں دوسری طرف ایسے تجزیے بھی شائع ہوئے اور معتبر مصنّفین کی کتب شائع ہوئیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلطنت پر بھاری قرضوں کی مختلف طریقوں سے ادائی کے لیے صیہونیوں کے تعاون کے بدلے میں سلطان عبدالحمید ثانی نے تھیوڈر ہرزل کے ساتھ فلسطین کا سودا کر لیا تھا۔ جرمن قیصر، ولیم ثانی تُرکی کا اتحادی اور سلطان عبدالحمید ثانی کا دوست شمار ہوتا تھا۔ اُس نے استنبول کے تین دَورے کیے تھے۔1897ء میں صیہونی عالمی کانفرنس سوئٹزرلینڈ کے شہر، باسل میں ہو چُکی تھی۔

تھیوڈر ہرزل کی قیادت میں عالمی صیہونی تنظیم کا قیام عمل میں آ گیا تھا اور فلسطین کو یہودی ریاست بنانے کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔یہ ایک اتفاق تھا یا سوچی سمجھی اسکیم کہ1898ء میں جب قیصر ولیم ثانی تُرکی کے دَورے پر استنبول پہنچا، تو تھیوڈر ہرزل بھی وہاں پہنچ گیا۔ مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سلطان عبدالحمید اور تھیوڈر ہرزل دونوں ایک دوسرے کو گہرا دوست قرار دے رہے تھے۔

کئی کتب کے مصنّف، فلسطینی نژاد دانش وَر، راشد خالدی کی کتاب’’ The Hundred Years' War on Palestine ‘‘کے ابتدائی صفحات لبنانی صاحبِ قلم، ڈاکٹر حسّان علی حلاق کی کتاب’’مؤقف الدَّولَۃ العثمانیۃ من الحَرکَۃ الصَّیہُونیۃ‘‘(The Ottoman Stat's attitude towards the Zionist Movement اور’’ دَور الیہود و قُویٰ الدّولیۃ فی خلع السلطان عبدالحمید عن العرش‘‘ کے علاوہ ایک خاتون فضوہ نصیرت کی’’ The Role of Sultan Abdul Hamid in Facilitiating the Zionist Control of Palestine کے علاوہInstitute of Palestine Studies اور Palestine Documentsاور Herzel's Dieries جیسی دستاویزات کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ فلسطین کا معاملہ بالکل ویسے ہی ہوا، جیسے کشمیر کا ہوا تھا، یعنی قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔سلطان عبدالحمید ثانی کے گرد ایک جال تان دیا گیا تھا۔

خود اُن کے بعد منصبِ خلافت پر سریر آرا اُن کا بھائی، محمّد خامس(پنجم) ریشہ دوانیوں میں شریک تھا۔ البانیہ میں تُرک فوج کے قتلِ عام نے ایک بحران پیدا کر رکھا تھا۔ سلطان نے ان حالات سے نکلنے کے لیے صیہونیوں کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ ہمارے سامنے انگریزی میں لکھا ہوا ایک طویل مضمون کُھلا ہوا ہے، جس کا عنوان ہے۔

’’سلطان نے تُرکی ٹوپی کے بدلے یہودی ہَیٹ پہن لیا اور فلسطین کا سودا کر دیا اور فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام پر راضی ہوگیا۔‘‘ وہ بلاشبہ بیتُ المقدِس اور مسجدِ اقصیٰ سے متعلق پریشان تھا، لیکن تھیوڈر ہرزل نے سلطان کو یقین دلایا تھا کہ یروشلم کو مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مقدّس مقام کا درجہ دے کر ایک آزاد شہر رکھیں گے۔

جدید صیہونیت کے بانی، تھیوڈر ہرزل نے اپنی ڈائری میں سلطان عبدالحمید کے ساتھ اپنی دوستی اور شُکر گزاری کا خاص طور پر تذکرہ کیا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کو جو بیس ملین پاؤنڈز صیہونیوں نے دیئے، اُن میں سے دو ملین پاؤنڈز فلسطین کی قیمت تھی اور اٹھارہ ملین پاؤنڈز سلطنت کا قرض ادا کرنے کے لیے دیئے گئے تھے۔

یہ کہانی سنسنی خیز، ہوش رُبا اور الم ناک ہے، جس کا ایک صفحاتی مضمون میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ سلطان عبدالحمید کی معزولی کے وقت تھیوڈر ہرزل زندہ نہیں تھا، لیکن سلطان جن صیہونیوں کے دامِ فریب میں پھنسا،آخر اُنہوں نے ہی اُس کی معزولی میں اہم کردار ادا کیا۔ ہرزل نے اگرچہ صیہونیت کا فلسفہ یہودیوں میں بہت مقبول کر دیا تھا اور بہت سے فکری اور عملی رہنما اس مشن پر کاربند تھے، تاہم ہرزل کی موت کے بعد ڈیوڈ وولف سون (David Wolffsohn) اس کا جانشین بنا۔