رمضان المبارک جیسے جیسے قریب آرہے ہیں، ناجائز منافع خور مافیا کی سرگرمیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔چینی کی قیمت میں بلاجواز اضافے کے ساتھ ساتھ دوسری ایسی اشیائے خورد و نوش بھی منافع خوروں کی اس مذموم روش کا ہدف بن رہی ہیں جن کا استعمال رمضان میں نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔ بناسپتی گھی ان اشیاء میں سرفہرست ہے کیونکہ افطار اور سحری میں بنائی جانے والی ڈشوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ملک میں درجہ اول اوردرجہ دوم کا گھی 6روپے فی کلو تک مہنگا ہوگیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافے کے امکانات بہت واضح ہیں۔ اس اضافے کی وجہ سے درجہ اول کا گھی ہول سیل میں 595اوردرجہ دوم کا گھی 540روپے فی کلو ہوگیا ہے۔ درجہ دوم کے بعض برانڈز 550روپے فی کلو میں بھی فروخت کیے جارہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ رمضان سے پہلے قیمتوں میں مزید اضافہ کرکے عوامی دباؤ کے نتیجے میں قیمتوں میں معمولی کمی کردی جائے تاکہ اضافی منافع بھی کمایا جاسکے اور صارفین کو بھی مطمئن کردیا جائے۔ ناجائز منافع خوری کی مستقل روک تھام کیلئے صوبائی اور مقامی حکومتوں کو مؤثر نگرانی کا ہمہ وقت فعال رہنے والا نظام وضع کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں خوردنی تیل کی درآمد پر ہر سال چار پانچ ارب ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کرنے کے بجائے ملک ہی میں پام آئل کی کاشت کے طاق نسیاں میں پڑے منصوبوں پر عمل کیا جانا چاہیے۔ لاکھوں ایکڑ پر محیط ساحلی علاقے پام کی شجرکاری کیلئے نہایت موزوں ہیں ۔ خصوصاً سندھ میںاس کے تجربات بہت کامیاب رہے ہیں۔تاہم مفاد پرست مافیا نے اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پام کی شجرکاری بلاتاخیر شروع کرکے نہ صرف ملک کے اندر سستا خوردنی تیل اورگھی پیدا کرکے زرمبادلہ بچایا جائے بلکہ زائد از ضرورت پام آئل برآمد کرکے بھاری زرمبادلہ بھی کمایا جائے۔