• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں طلاق اور خلع کی تشویشناک حد تک بڑھی شرح اس امر کی متقاضی ہے کہ معاشرے میں خانگی سطح پر انصاف کی ایسی فضا پیدا کی جائے جس کے ذریعے خاندانوں کے بکھرنے کے امکانات کم کئے جاسکیں اور میاں بیوی کی علیحدگی سے متاثر ہونے والے بچوں کو معاشی ،نفسیاتی، جذباتی عدم تحفظ سے ممکنہ حد تک بچایا جاسکے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح میں پچھلے پانچ برسوں میں 35فیصد اضافہ ہوا جبکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پچھلے چار سالوں میں خلع کے مقدمات کی تعداد دگنی ہوگئی۔ کراچی کی فیملی کورٹس میں گزشتہ برس ازدواجی رشتہ ختم کرنے کے لئے 11ہزار سے زائد مقدمات دائر کئے گئے۔ 2020ء میں فیملی کورٹس میں دائر اس نوع کے کیسز کی تعداد 5ہزار 8سو تھی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد 4لاکھ 99ہزار ریکارڈ کی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طلاق اور خلع کی بڑھتی تعداد کمزور خاندانی نظام کی عکاسی کرتی ہے۔ گیلپ پاکستان کے سروے میں اظہار رائے کرنے والے ہر پانچ میں سے دو افراد کا خیال ہے کہ غیر ضروری خواہشات اور عدم برداشت طلاق اور خلع کے معاملات میں اضافے کی بڑی وجوہ ہیں۔ مغربی دنیا میں خاندانی نظام ٹوٹنے اور کرۂ ارض کے دوسرے حصوں میں اسکے پھیلنے کی تفصیلات سے قطع نظر اسلام میں طلاق اور خلع کی اجازت ہے۔ طلاق قابل تحسین بات نہیں مگر بیویوں پر ظلم سے اجتناب کیلئےاس کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ پاکستان کے قوانین، عدالتی فیصلوں اور سماجی انجمنوں کی سرگرمیوں کی صورت میں معاشرے میں انصاف کا ماحول پیدا کرنیکی کاوشیں سامنے آئی ہیں جبکہ ایسی قانون سازی کی ضرورت ہر وقت موجود رہتی ہے جس سے معاشرے کے کمزور طبقات کے جانی،مالی و سماجی تحفظ کی تدابیر زیادہ موثر بنائی جاسکیں۔ اس باب میں فیملی کورٹس کی تعداد میں اضافے اور مقدمات کے جلد تصفیے کا اہتمام بطور خاص ضروری ہے۔

تازہ ترین