قارئین کرام! غور تو فرمائیں کہ آپ پاکستانی قومی امور میں دلچسپی کے حامل ہونے کے حوالے سے یقیناً ہماری سوسائٹی کے بہت قابل قدر شہری ہیں۔ 8فروری پاکستان کی بنتی تاریخ میں عوامی بیداری اور نظام بد کیخلاف قوت اخوت عوام کی باکمال و جمال مزاحمت کے حوالے سے امر ہوگیا۔ گزشتہ سال اسی ماہ ہونیوالا الیکشن ڈے عوام کی ملک گیر اخوت سے نکلی سیاسی بیداری اور جمہوری جذبے اور اسکے عملی مظاہرے و ثبوت کے مقابل مسلط نظام بد کے آئین سے تصادم اور اسکے نکلے جاری مہلک نتائج کے حوالے سے ہماری آنیوالی نسلیں کبھی نہ بھولیں گی۔ وہ اسے اپنی آنے والی نسل کیلئے سبق و رہنمائی کے طور پر پیش کریں گی۔ یہ پاکستانی تاریخ کا ایسا انوکھا الیکشن ثابت ہوا کہ کار سرکار کی حفاظتی چھتری تلے ایک فریق کی یک طرفہ مکمل آزاد لیکن اچاٹ انتخابی مہم کے باوجود ووٹرز کے ووٹ ڈالنے کے عہد و عزم اور اسے کمال جرأت و حکمت سے نبھاتے پاکستان ہی نہیں بین الاقوامی جمہوری تاریخ کا ایک سنہری باب رقم کیا۔ پولنگ ڈے پر جرأت و حکمت کا مظاہرہ یوں ہوا کہ الیکشن کمیشن سمیت سرکار ستم کار نے حق ووٹ کی حفاظت کے امین ووٹروں کو مکمل کنٹرولڈ انتخابی مہم کے دوران پولنگ ڈے سے ڈرانے ہراساں کرنے حتیٰ کہ امیدواروں کو کاغذات نامزدگی داخل کرانے سے بذریعہ پولیس اور وفاداران نظام روکنے، انہیں اغوا و گرفتار کرنے کے حربے ہتھکنڈے استعمال کرکے انتخابی سیاست کا ایک بے مثال کھلواڑ مچایا جبکہ ’’مہربان فریق‘‘ کے کتنے ہی کارندے طویل مدتی اور بااختیار نگران حکومت میں شامل تھے اور بعد از پولنگ ووٹوں سے مالا مال معتوب ملک گیر سب سے بڑی پارلیمانی قوت ثابت ہونیوالی پاکستان تحریک انصاف کے 180نشستیں جیتنے کے یقین کی حد تک درست ثابت ہونیوالے دعوے، پبلک ڈس کورس بنکر میڈیا کیلئے اتنا بڑا دبائو بن گئے۔ اسی طرح پنجاب کی روایتی بڑی قوت عوام کے سکڑ کر 17نشستوں کی فری کوئنسی کے تذکرے تادم بلند درجے پر رہے۔ اس طرح غیرمعمولی فن کاریوں اور روایتی بابوئوں کی شعبدہ بازی سے اکثریتی جماعت بننے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل کیا اور جتائی گئی جماعت نے شام غریباں کے ماحول میں جشن فتح منایا اور حکومت بنائی۔ پیپلزپارٹی دم بخود ہو کر حکومت کی حمایت کرتے اس میں شامل ہونے سے گریزاں ہوگئی۔ لیکن خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل جیسے کلاسیکل نون لیگئے تو حکومتی انتخابی شعبدوں کے تکلیف دہ مشاہدے و اندازے سے پہلے ہی اپنی جماعت کے سیاسی کھیل کھلواڑ سے پناہ مانگ گئے تھے، پھر میاں صاحب کے رازداں و دست راست سینیٹر کرمانی بھی آئین و قانون و عدلیہ کے ساتھ تباہ کن بدسلوکی سے پریشان ہو کر دامن بچاتے رہبر و جماعت دونوں سے دور پرے رہتے رہتے ناقد بن گئے۔ خواجہ رفیق ڈگمگاتے پھر قافلے سے جڑ گئے۔
8فروری 2024ء کو انتخابی نتائج بلڈوز کرکے اکثریت کو اپوزیشن (وہ بھی مسلسل معتوب) اور اقلیتی پارلیمانی جماعت کو (جوں کی توں) ’’حکمران جماعت‘‘ بنانے کیلئے جو غیر آئینی پاپڑ بیلے گئے اس نے پاکستانی جنرل الیکشن کو الیکشن مانیٹرنگ اور جائزے مرتب کرنیوالے انٹرنیشنل واچ ڈوگز کو پاکستان جانب فوکس کرنے پر مجبور کر دیا۔ سو قصہ مختصر جو ستم ڈھایا گیا اس میں خالصتاً سچی کھری اجتماعی مرضی سے پختہ و یکتا بنے مین ڈیٹ کو جس بری طرح روند کر نظام بد کو اسکی انتہا پر پہنچایا گیا، اس کا ایک بڑا اور فوری نتیجہ عدلیہ پر وار کرنیوالی 26ویں ترمیم جو منظور ہو کر اب تک پاکستان کے پہلے ہی گزشتہ دو اڑھائی سال میں مسلسل بگڑتے نظام عدل کیساتھ جو کچھ کر چکی ہے، پاکستانی 70سالہ پرآشوب سیاست کے اس (26ویں ترمیم) سب سے تباہ کن جگاڑ نے مملکت کو مکمل سرزمین بے آئین بنا دیا ہے۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان کا نظام عدل 2024ء کے معیار کی عالمی رینکنگ میں 142ویں درجے پر چلا گیا۔ فقط نائیجریا اور مالی سے قدرے بہتر۔ وسط مدتی نتائج بھی عوامی بیداری و مزاحمت کے باوجود سردست پیچیدہ ہی معلوم دے رہے ہیں، لیکن دور رس نتائج یقیناً خوش کن اور تاریخ ساز ہونگے، جس کی عملی شکل ایک تابناک پاکستان کا ظہور ہوگا جس کی طاقت اور اصل اثاثہ قوت اخوت عوام ہی ہونگے۔ تاہم یہ دور رس نتائج بھی کوئی عشروں کی بات نہیں کہ زمانہ تیز تر ہوگیا ۔ایک عشرے کے اختتام پر ہی بے بس و معتوب فسطائیت عوام کی حکیمانہ و باوقار اور اجتماعی سچی و کھری سوچ و اپروچ اور مزاحمت سے مجوزہ تابناک پاکستان کے مطابق اپنے پوٹینشل کے مطابق آغاز سفر شروع کردیگا۔ سو لازم ہے کہ سب دائرے ٹوٹ پھوٹ کر مستحکم ہوتے پاکستان کا ترقی جاریہ کا سفر شروع ہوئے ہی ہوئے۔ حکومتی پالیسی سے ہر گز نہیں بلکہ عوامی زور سے ہی آئی پی پیزکی لوٹ مار ختم اور کرپشن کلچر کا ایک بڑا ذریعہ بند ہوا۔ وہ دن دور نہیں جب 8فروری کی طاقت جاریہ سے پاکستانی عوام فقط عوام آئین کا بگڑا حلیہ درست کرنے اور بنیادی حقوق بازیاب کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 26ویں ترمیم کاکوہ گراں کی شکست و ریخت کے بعد ہی یہ سب خواب شرمندہ تعبیر ہوںگے جس کی شیلف لائف تیزی سے گرتی نظر تو آ رہی ہے۔
ٹرمپ ان ایکشن:ہمسائے، اتحادی، دوست ہراساں
(گزشتہ سے پیوستہ)
یہ امر حیران کن ہے کہ دوسری ٹرم کے آغاز پر ہی صدر نے فوری نتائج کے حامل دو تین ایسے اقدامات کئے جو متنازعہ ہی نہیں، یو این چارٹر سے متصادم، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور زوال پذیر ہوگئے انٹرنیشنلزم میں تیزی پیدا کرنے کا سبب بن گئے۔ کینیڈا کو امریکہ کی51ویں ریاست بنانے کی ہوس اور ڈنمارک کی علاقائی ارض، گرین لینڈ کو ڈینش مرضی کے خلاف امریکہ کے لئے خریدنے کے ببانگ دہل اعلان نے کینیڈا جیسے خوش کن، پرامن اور مکمل ہم آہنگ ہمسائے اور مغربی یورپی حلیفوں خصوصاً پورے سکنڈے نیوین ریجن کو حیران و پریشان کردیا ہے۔ دوسرے ساتھ جڑے جنوبی ہمسائے میکسیکو اور کنفیوژڈ حلیف بھارت کے بڑی تعداد میں غیر قانونی آباد کاروں کو آر سی کے جہازوں میں سخت گیری سے ڈی پورٹ کرنے پر بھارتی اور میکسیکن میڈیا میں بدسلوکی سے وطن بھیجنے کی دہائی مچی ہوئی ہے سب سے بڑا بم المیہ غزہ کی حقیقت پر عالمی رائے عامہ سے مکمل منہ موڑتے مسئلے کو اپنے تئیں مسئلے کے طور پر ختم کرکے اس پر امریکی قبضے کا اعلان، عالمی مجرم نیتن یاہو کے ہمرکاب ہو کر کرنے سے پوری دنیا تشویش میں مبتلا ہوگئی۔ اس اعلان سے سعودی عرب اور پاکستان جیسے امریکی دوست ممالک سمیت اسرائیل کو تسلیم کرنے والے عرب ممالک بھی دم بخود رہ گئے ہیں۔جس طرح صدر ٹرمپ کو یہ متنازعہ ترین اقدامات لینے میں دیر نہیں لگی ان کے فوری نتائج نکلنے میں بھی کوئی تاخیر نہیں ہوئی۔ جنگوں اور اب دوسرے ممالک میں امریکی مداخلت سے گریز کے انتخابی وعدے و دعوے ٹرمپ کے وائٹ ہائوس سے جاری سیاسی ابلاغ اور صدارتی اقدامات سے بھک سے اڑ گئے۔ ان فوری سخت متنازع اور یو این چارٹر سے متصادم امریکی صدارتی اقدامات کے نتائج تو ساتھ ساتھ نکل ہی رہے ہیں۔ اہم ترین یہ کہ یہ سب اتنے واضح اور عالمی برادری اور متاثرہ ملکوں کے لئے فوری نوٹس ایبل ہیں کہ ان نتائج کا واضح امکانی نتیجہ ظہور پذیر ہوگیا۔ عالمی سیاست کا پوسٹ وار ایریا(بعد از دوسری جنگ عظیم) تیزی سے دم توڑتا، نئی عالمی صف بندی کے پیراڈائم شفٹ کی رفتار تیزتر بنانے لگا ہے۔