• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، ایک زمانے میں یہ پاکستان کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا، جب تک کراچی دارالحکومت رہا، پاکستان شاہراۂ ترقی پر رہا اور جب دارالحکومت نئے بسائے گئے شہر میں پوری طرح منتقل ہو گیا تو پاکستان شاہراۂ تنزلی پر آ گیا۔ اسلامی ممالک کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ میں دو شہر بسا کر دارالحکومت بنائے گئے، ایک شہر کوفہ تھا، ایک شہر اسلام آباد ہے، اس موضوع پر کسی اور دن بات کریں گے، آج کراچی کی بات کرتے ہیں۔ سمندر کے کنارے آباد اس خوبصورت شہر کو پالن ہار کہا جاتا ہے، لوگ پورے ملک سے روزی روٹی کے چکر میں یہاں آتے ہیں، قسمت مہربان ہوتی ہے اور وہ سیٹھ بن جاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا، دنیا بھر کے سیاح کراچی کا رخ کرتے تھے، کراچی سیاحوں کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا تھا، فضاؤں نے یہ دور بھی دیکھا کہ ہر دو چار منٹ بعد کراچی کے ائر پورٹ پر کوئی جہاز اترتا اور کوئی اڑان بھرتا، لگ بھگ پچاس برس ہونے کو ہیں، جب کراچی کو بربادی کی شاہراہ پر ڈال دیا گیا تھا، بربادی کی اس مسافت میں لوگ مارے گئے، لوگ کچلے گئے، گھروں کے چراغ گل ہوئے، کراچی کی گلیوں میں موت بلا بن کے پھرتی رہی، نظم و نسق چلانے والوں نے بربادی کی اس شاہراہ پر مزید کھڈے کھود دیئے، پاسبانی کا ہر طریقہ بربادی کا نیا کھیل ثابت ہوا، یہاں ادب تھا، کاروبار تھا، سیاحت تھی، رنگینی تھی، سب کچھ بربادی کی شاہراہ کی نذر ہو گیا، حکمران طبقے نے ذاتی مفادات کے چکر میں کراچی کے مفادات کو نظر انداز کیا تو چوری، ڈاکے اور بھتے کا کھیل شروع ہو گیا۔ چائنہ کٹنگ تو تازہ کھیل ہے، زمینوں پر قبضہ تو لیاقت علی خان کے دور ہی سے شروع ہو گیا تھا، حالات دیکھیں تو ایسے لگتا ہے جیسے کراچی کا کوئی والی وارث نہیں، دعوے سنیں تو رہنماؤں کی بھیڑ نظر آتی ہے اور پاسبانی کے دعوے الگ نظر آتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ جس کراچی کو بربادی کی شاہراہ پر ڈالا گیا تھا، اب اس کی ہر سڑک، شاہراۂ موت بن چکی ہے۔ یہ دو روز پہلے کی بات ہے، کراٹے کی چیمپئن بننے والی لڑکی کو اس کا بھائی کھانا کھلانے لے گیا، وہ خوش تھا کہ میری بہن چیمپئن بنی ہے، کھانا تو کھا لیا مگر واپسی پر ان کی بائیک کو ایک ڈمپر نے کچل کے رکھ دیا، بہن زخمی ہو گئی اور بھائی موت کے حوالے ہو گیا۔ کراچی شہر میں چلنے والے ٹینکر، ڈمپر اور ٹرالر موت کا پیغام بن کر ہر سڑک پر گھوم رہے ہیں، مختصر سے عرصے میں 92 شہریوں کو کچلا جا چکا ہے، کوئی احتجاج کرے تو کہاں کرے؟ کوئی اپنا مقدمہ کہاں لے کر جائے کہ یہ سب مافیاز کا کھیل اور مافیاز عام لوگوں سے کہیں طاقتور ہیں، اتنے طاقتور کہ عوامی رہنما بھی ان کے سامنے نہیں بول سکتے، ایک ٹینکر مافیا ہے، کہیں ڈمپر مافیا ہے اور کہیں ٹرالر مالکان کا اپنا راج ہے، حکومتیں دعوے کرتی ہیں، عمل کچھ نہیں۔ عمل یہ ہے کہ نا جانے کون کہاں کچل دیا جائے، نا جانے کس کے آنگن میں لاش آ جائے، کس کی خوشیاں ماتم میں بدل جائیں، مافیاز کراچی کو کب کا برباد کر چکے، اب وہاں زندگی مشکل بنا دی ہے، زندگی جینے کا نام ہے اور جہاں ہر طرف موت کی شاہراہ ہو وہاں خاک جیا جا سکتا ہے۔ ملکی حالات بھی کراچی سے زیادہ مختلف نہیں، سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کہتے ہیں " حکمران معیشت کی بہتری کے دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر زمینی حقائق ان دعوؤں کے برعکس ہیں، اگر معاشی حالات درست ہیں تو پھر لاکھوں نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں پاکستان کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ نوجوان تو قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں مگر وہ کس قدر مجبور ہیں کہ جان تک داؤ پر لگا کر ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ بجلی، گیس اور پانی کے بلز ادا کرنا مڈل کلاس کے بس سے باہر ہو چکا ہے، جب بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں تو معاشی دعوے خاک آلودہ لگتے ہیں، مزدور اور کسان معاشی بد حالی کا شکار ہیں، جب عوامی فلاح و بہبود پس پشت چلی جائے تو کرپشن کا بازار کھلتا ہے، آج پاکستان میں یہی ہو رہا ہے۔ نا اہلی، بد انتظامی، مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں، جب تک کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ مار کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، عوام مسائل میں جکڑے رہیں گے اور پاکستان کی حقیقی ترقی ایک خواب ہی رہے گی‘‘۔ یہ وہ پریشان کن حالات ہیں جن میں لوگوں کو زندگیاں گزارنی پڑ رہی ہیں کہ بقول منیر نیازی

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

تازہ ترین