پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کے دوران حادثات میں مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں بڑی تعداد دیہات کے ان نوجوان لڑکوں کی ہوتی ہے جنہیں اس سفر پر روانگی سے پہلے ان مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا جن کا انہیں دوران سفر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ اور گروہ انہیں یورپ پہنچنے کے بعد امیر ہونے کے ایسے سہانے خواب دکھاتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے گھر والوں کی عمر بھر کی جمع پونجی ہنسی خوشی لٹانے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس میں کسی حد تک قصور ان کے گھر والوں کا بھی ہوتا ہے جو معاشرے میں اپنی حیثیت کو بہتر بنانے کے لئے اپنے مال اور اولاد کو دائو پر لگانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ایسے واقعات کا تسلسل سے ہونا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے۔ اس حوالے سے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے متعدد افسران و عملے کے اہلکاروں کو انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے پر برطرف کیا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں فیصل آباد، سیالکوٹ، لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ کے ہوائی اڈوں سمیت ملک کے اہم ایگزٹ پوائنٹس پر کام کرنے والے ایف آئی اے کے اہلکاروں کی ممکنہ شمولیت کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اس معاملے پر تحقیقات میں سست روی پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں نے ایف آئی اے کے افسران اور اہلکاروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ انسانی اسمگلنگ یا غیر قانونی طور پر یورپ جانے کا رجحان صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سال کے دوران عالمی سطح پر اس طرح کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کیلئے انسانی ا سمگلنگ میں ملوث ایف آئی اے کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ 2010کے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت انسانی اسمگلرز کی جائیدادیں ضبط کرنے کا عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی نوجوان نسل کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں نوجوان طبقے کیلئے روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے اور انہیں ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ قانونی طور پر بیرون ملک جا کر اچھا روزگار کما سکیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملازمت کے حصول کے خواہشمند 60فیصد سے زیادہ افراد کے پاس خدمات اور مینو فیکچرنگ کے شعبوں میں درکار مہارتوں کی کمی ہے۔ اس وجہ سے ملک میں بہت سی کمپنیاں اور سرمایہ کار اپنے پیداواری عمل کو اپ گریڈ کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ ملک میں نئی ملازمتوں کیلئے درکار ہنر مند انسانی وسائل کی کمی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان لیبر فورس سروے 21-2020 کے مطابق ملک میں 15کروڑ 98 لاکھ 30ہزار افراد کام کرنے کی عمر میں ہیں۔ ان میں سے آٹھ کروڑ 92لاکھ مرد ہیں اور تقریباً سات کروڑ 89لاکھ خواتین ہیں۔ تاہم کام کاج کے قابل اس آبادی میں سے دو کروڑ 60 لاکھ مرد اور چھ کروڑ 20لاکھ خواتین بے روزگار ہیں۔ اسی طرح ورلڈ اکنامک فورم کی 2023کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روزگار لوگوں میں سے اکثر کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق دراصل پاکستان میں ہنر مند افراد کی تعداد اتنی کم ہے کہ اس حوالے سے بنائی گئی 143ممالک کی ایک فہرست میں اس کا نمبر 132ہے۔ اس فہرست میں شامل جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک پاکستان سے کہیں بہتر ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور بیرون ملک ہنر مند افراد کیلئے روزگار کے بہترین مواقع وسیع تعداد میں موجود ہیں لیکن ہمارے نوجوان طبقے میں ٹیکنیکل ٹریننگ کے حصول کی خواہش انتہائی کم ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے تعلیمی نظام میں بھی کم تعلیمی استعداد کے حامل طلبہ کو ٹیکنیکل ٹریننگ دینے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے اور ہر کوئی یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کر کے اعلیٰ سرکاری نوکری حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ دوسری طرف ملک میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے اداروں کی بھی کمی ہے اور ان کی مجموعی تعداد 3500کے قریب ہے جہاں بمشکل پانچ لاکھ افراد کو تربیت دینے کی سہولت دستیاب ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں کی استعداد کار بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان میں سکھائے جانے والے ٹیکنیکل کورسز کا معیار مزید بہتر بنایا جائے۔ اسی طرح دیگر صوبوں اور وفاقی حکومت کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقتصادی ترقی اور بیروزگاری کو کم کرنے کیلئے ٹیکنیکل ٹریننگ کورسز کا فروغ اور ان میں جدت لانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سفارتخانوں میں تعینات ٹریڈ آفیسرز کو یہ ٹاسک دیا جا سکتا ہے کہ وہ ہر ملک کی ضرورت کے مطابق افرادی قوت کی تیاری کیلئے مخصوص ٹریڈز کی نشاندہی کریں۔ اس طرح ملنے والی معلومات کو آگے ٹیکنیکل ٹریننگ دینے والے اداروں کے ساتھ شیئر کیا جائے تا کہ وہ انہی ٹریڈز میں نوجوانوں کو عالمی معیار کے مطابق تربیت فراہم کرکے ملازمت کا حصول یقینی بنائیں۔ اس طرح عالمی سطح پر پاکستان کے ہنرمند افراد کی مانگ میں اضافہ ہو سکے گا اور پاکستان کو زرمبادلہ کے حصول کا ایک بہتر متبادل بھی میسر آ جائے گا۔ ماضی قریب میں چین نے اسی طرح اپنی نوجوان نسل کو ہنر مند بنا کر اپنی قومی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں ہندوستان اور بنگلہ دیش نے بھی اپنے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنےکیلئے درکار ہنر کی تربیت دے کر ترقی کی رفتار کو تیز کیا ہے۔