• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سید حسین سجاد پاکستان کی تینوں مسلح افواج کو آلات فراہم کرنے والی ایک بڑی کمپنی کے مالک ہیں اور انکی نظر اسی لئےدوسرے ممالک کی صلاحیت پر بھی رہتی ہے۔ امن ڈائیلاگ دو ہزار پچيس میں شرکت کرنے کیلئے کراچی پہنچا تو ان سے ملاقات طے تھی کیوں کہ پاکستانی بحریہ کی یہ سوچ کہ یہ پانی کشمکش کیلئے نہیں بلکہ ترقی کا مشترکہ میدان ہے۔ کسی فوج کی جانب سے کشمکش سے مفاد حاصل نہ کرنا اور ترقی کے مواقع کو استعمال کرنا ایک ایسی کاوش ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فوجی قیادت عصر حاضر کے بدلتے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ سید حسین سجاد سے اسی موضوع پر گفتگو رہی۔ پاکستان کی بحری فوج نے اسی سوچ کے تحت ہر دو سال بعد منعقد ہونے والی امن مشقوں کے ساتھ ساتھ اس بار امن ڈائیلاگ دو ہزار پچيس کا انعقاد کیا۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز اور پاک بحریہ نے جب امن مشقوں کو دیکھنے اور امن ڈائیلاگ میں شرکت کرنے کی دعوت دی تو اس کا مشاہدہ کرنے کیلئے عازم کراچی ہوا۔ دنیا بھر کی اقوام اچھی طرح سے آگاہ ہیں کہ ہم اب گلوبلائزیشن کے عہد میں جی رہے ہیں اوراس صورت حال کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی مثبت سرگرمی ہو یا منفی ہلچل کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہتا۔ گلوبلائزیشن کے عہد میں بحری سلامتی کے تقاضے تبدیل بھی ہو گئے ہیں اور انکی اہمیت بھی زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں طاقت کے نئے مراکز ابھر رہے ہیں اور انکے درمیان بڑے پیمانے پر باہمی تجارت ہونے کے باوجود معاشی تصادم بھی روز روشن کی مانند عیاں ہے اور انہی جھگڑوں کی وجہ سے، ان میں کی جانے والی ناانصافیوں کو بطور دلیل استعمال کرتے ہوئے غیر ریاستی عناصر بھی پنپ رہے ہیں اور یہ عناصر وقت کے ساتھ ساتھ بحری سلامتی کیلئے یا تو خطرہ بن رہے ہیں یا بحری راستوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوششوں میں نظر آتے ہیں۔ یہ دور ٹیکنالوجی کا ہے اس صورت حال میں سمندر میں چھپے قدرتی خزانے اور بحری تجارت ان سب کی حفاظت کرنے اور غیر ریاستی عناصر سے نبٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی، ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تشکیل دینی چاہئے اور اس امن ڈائیلاگ سے اسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کوشش کی گئی۔ دنیا بھر سے ساٹھ ممالک کی بحری افواج کی پاکستانی بحریہ کی جانب سے منعقد کی گئی مشقوں میں شمولیت اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان کی اہمیت مسلمہ ہے بس اسکو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ ان مشقوں میں دیگر ممالک جیسے ایران اور بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ چین اور امریکہ نے بھی شرکت کی۔ پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نوید اشرف سے کچھ عرصہ قبل بھی ملاقات ہوئی تھی اور اس سرگرمی کے دوران بھی ان سے ملاقات ہوئی انکے علاوہ دنیا بھر سے آئے ہوئے بحری افواج کے افسران سے گفتگو کرنےخاص طور پر بحر ہند اور اسکے اردگرد کے حالات اور ان حالات پر کون کس قسم کے خیالات رکھتا ہے جاننے کا موقع ملا۔ ایرانی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل شہرام سے ملاقات ہوئی، پاکستان کے حوالے سے بہت اچھے جذبات رکھنے والی شخصیت ہیں اور وہ ان امن مشقوں یا امن ڈائیلاگ کی حد تک ہی صرف پاکستانی اور ایرانی بحریہ کے تعلقات کو نہیں دیکھ رہےبلکہ انکے خیال میں دونوں ممالک کی بحری افواج کے باہمی تعلقات بہتر مقام پر ہیں اور ان میں مزید بہتر ی کی گنجائش بھی ہے۔ بنگلہ دیش کی گزشتہ حکومت کی جانب سے پاکستان کے حوالے سے جو ناقابل فہم پالیسی اختیار کی گئی تھی خیال رہے کہ اس کو ناقابل فہم اسلئے کہہ رہا ہوں کہ اس سے وہ اپنے لوگوں کیلئے کچھ بھی حاصل کرنے کی بجائے صرف اپنی خود مختاری پر کسی اور کیلئے سمجھوتہ کر چکی تھی ۔ انہی وجوہات کے باعث اب کچھ عرصہ سے بنگلہ دیشی فوجی افسران پاکستان کا دورہ کررہے ہیں تو ان کو نئے معنی پہنائے جا رہے ہیں حالانکہ قریبی تعلقات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں اور بنگلہ دیش کی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نظم الحسن کی ان مشقوں اور امن ڈائیلاگ میں شرکت کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے، ان کی گفتگو میں بھی امن ڈائیلاگ کی سوچ کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے بحری امور میں دو طرفہ تعلقات کی بڑھوتری کی خواہش موجود تھی۔ ایک بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ پاکستان کی اپنی ایک اہمیت ہے اور ہمیں اس کی چنداں کوئی ضرورت نہیںکہ ہم کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی دوسرے ملک کے مخالف نقطہ نظر سے دیکھیں بلکہ اس میں صرف باہمی تعاون کا جذبہ ہونا چاہئے چاہے ہمارے یہ تعلقات چین کے ساتھ ہوں یا ایران اور بنگلہ دیش کے ساتھ۔ کراچی میں تعینات جرمن قونصل جنرل روڈیگر لوٹز سے بھی ملاقات طے تھی۔ یورپی سیاست اوراس کے پاکستان پر اثرات کی بابت گفتگو رہی پاکستان کی اہمیت اور سیاست کے حوالے سے ان کی معلومات اور مشاہدہ متاثر کن اور بہت مثبت تھا ۔ احمد چنائے معروف کاروباری شخصیت ہیں ان سے ملاقات ہوئی تو انکا ایک ہی مؤقف تھا کہ اگر پاکستان اپنی معاشی صلاحیت کے مطابق متحرک ہو جائے تو ہمیں کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ پاکستان اپنے معاشی معاملات کو سلجھانے کیلئے ادھر ادھر دیکھتا پھرے۔ شام کو ایرانی قونصل جنرل کی جانب سے انقلاب کی سالگرہ پر جانا ہوا۔ اس تقریب میں ایرانی سفیر، گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ رونقِ محفل تھے۔ ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان پاکستان دوستی کے حوالے سے بہت معروف ہیں اس پروگرام میں دوبارہ سے ایرانی بحریہ کے سربراہ سے بھی ملاقات ہو گئی۔ اس تقریب میں معروف صحافی ندیم رضا اور حماد رضا زیدی کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس کی دنیا کے معروف نام بھی موجود تھے اور ہم یہ گفتگو کرنے لگے کہ جب دونوں ممالک کے کرتا دھرتا باہمی امور پر اتنی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تو پھر مسائل کیوں موجود ہیں بس جواب ایک ہی تھا کہ ایک چنگاری بہت نقصان کر سکتی ہے اور ہمیں اس سے بچنا چاہئے۔

تازہ ترین