• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک صاحب ہیں، ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں، اُن کا دعویٰ ہے کہ ہر بیماری کا علاج سورہ رحمٰن میں ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ’’آپ قاری باسط مصری کی آواز میں بغیر ترجمے کے سورہ رحمٰن سات دن تک روزانہ تین مرتبہ سنیں، پاس آدھا گلاس پانی رکھ لیں، آنکھیں بند کر لیں، ترجمے کے بغیر اِس لیے کہ کہیں آپ کا دھیان لفظوں کی طرف نہ چلا جائے، فوکس سورہ رحمٰن والے کی طرف ہونا چاہیے، اور پھر اپنے دل میں جتنےپیار سے ہو سکے تین بار اللہ اللہ اللہ کہیں،اور اللہ کی خاطر سب کو معاف کر دیں۔ بارہ سال سے چھوٹے بچے کے ماں باپ اگر اِس طرح سورہ رحمٰن سُن لیں تو اُن کا آٹزم والا بچہ شفایاب ہو جائے گا۔ ماں باپ اگر ٹھیک ہوجائیں، وہ اللہ کو مان لیں، اپنا Thought Process درست کر لیں اور اللہ کی مخلوق کو معاف کر دیں تو اللہ اُن کے بچے کو معاف کرکے ٹھیک کر دے گا‘‘۔

خدا میرے گناہ معاف کرے، سستی شہرت کی خاطر اللہ کی کتاب کے بارے میں اِس قسم کے دعوے کرنے والوں کو رتّی برابر بھی شرم نہیں آتی کہ وہ اُس کے کلام سے کس قسم کی من گھڑت باتیں منسوب کر رہے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی بات بعد میں کریں گے، پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دعویٰ قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہوتاہےیا نہیں؟ کیا خدا نے اپنی کتاب میں یا اللہ کے آخری نبیﷺ نے اپنے کسی قول یا عمل کے ذریعے یہ بات کی جو موصوف نہایت قطعیت کے ساتھ یوں بتا رہے ہیں جیسے نعوذ باللہ خدا اِن سے براہ راست ہم کلام ہوتا ہے۔ اور پھر اِس دعوے کا تضاد دیکھیں کہ تلاوت قاری باسط مصری کی آواز میں سننی ہے کیونکہ ’اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ اِس کے نتائج سب سے اچھے ہیں۔‘ واہ۔ یعنی سورہ رحمٰن اگر قاری شاکر قاسمی کی آواز میں سنیں گے تو وہ شفا نہیں دے گی باسط مصری کا ٹریڈ مارک ہوگا تو اللہ سنے گا۔ استغفراللہ۔ بطور مسلمان قرآن مجید پر ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے مگر یہ کتابِ ہدایت ہے، اِس کا مقصد آٹزم کا علاج بتانا نہیں بلکہ دنیا و آخرت کیلئے انسان کی رہنمائی کرنا ہے۔ اور یہ کیسی منطق ہے کہ اگر بچے کے ماں باپ اپنا قبلہ درست کر لیں تو اُن کا بچہ ٹھیک ہو جائے گا، اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جن والدین کے معصوم بچے آٹزم کا شکار ہیں انہیں ہم گمراہ کہہ رہے ہیں۔ ہمیں کس نے یہ اتھارٹی دی؟ اور بالفرض محال اگر یہ ’دلیل‘ مان بھی لی جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ آٹیزم والے بچے کے والدین اگر کسی وجہ سے موصوف کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل نہ کر سکیں تو کیا اِس کی سزا تمام عمر اُس معصوم بچے کو ملتی رہے گی جس بیچارے کے اختیار میں ہی نہیں کہ وہ سورہ رحمٰن سننے کا اہتمام کر سکے؟ کیا یہ انصاف ہو گا، کیا یہ بات اللہ کی شان کے مطابق ہو گی؟ ایک منٹ کیلئے ایسے والدین کا تصور کریں جنہوں نے صدقِ دل سے سورہ رحمٰن کی تلاوت سنی اور اسی طرح دل میں تین مرتبہ اللہ کو پکارا اور اپنے تمام دشمنوں کو معاف بھی کر دیا لیکن اِس کے باوجود اُن کا بچہ آٹزم سے نجات نہیں پا سکا تو کیا اُن ماں باپ کا قرآن پر اعتقاد مضبوط ہو گا یا متزلزل؟ ایسے لوگوں کی باتوں پر آپ مِن و عَن عمل بھی کرلیں لیکن نتائج درست نہ آنے پر یہ سارا مدعا آپ پر ہی ڈالیں گے کہ آپ کی نیت ٹھیک نہیں تھی، آپ کی دعا میں خشوع و خضوع نہیں تھا، آپ نے دل سے دعا نہیں کی، وغیرہ۔ بندہ پوچھے کہ کیا آٹزم کے مرض میں مبتلا بچوں کے والدین دل سے اپنے بچے کیلئے دعا نہیں کرتے ہوں گے؟ ضرورت مند تو دیوانہ ہوتا ہے، ایسے بچوں کے ماں باپ کو تو اگر کوئی کہے کہ بچے کو مٹی مل دیں تو ٹھیک ہوجائے گا تو وہ بیچارے یہ بھی کر گزریں گے۔

یہ باتیں لکھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ کوئی شخص اتنا سنگدل کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کے کلام کو ڈھال بنا کے لوگوں کی دل آزاری کرے، کیا اسے اندازہ نہیں کہ اِس طرح وہ اُن لوگوں کی تکلیف میں کس قدر اضافے کا باعث بن رہا ہے جو پہلے ہی اِس دنیا میں کڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں؟ یہ کہنا کہ اگر بچے کے ماں باپ ٹھیک ہو جائیں اور وہ اللہ کی مخلوق کو معاف کر دیں تو اللہ اُن کے بچے کو معافی دے دے گا، اِس قدر سنگدلانہ بات ہے کہ بے حِس سے بے حِس شخص بھی یہ بات نہیں کر سکتا مگر یہ لوگ اِتنے بے رحم ہیں کہ انہیں اپنی دکان چمکانے کے سوا اور کسی بات سے کوئی غرض نہیں، اِس مقصد کیلئے یہ اللہ کے کلام کو بھی بیچ رہے ہیں اور انہیں ذرہ برابر شرم نہیں آ رہی۔ مجھے یہ بات لکھنی تو نہیں چاہیے مگر لکھنا ضروری ہے کہ خدانخواستہ اگر اِن کا بچہ ایسے کسی موذی مرض کا شکار ہو جائے تو پھر یہ لوگ جان ہاپکنز سے اُس کا علاج کروائیں گے کسی قاری باسط مصری سے دَم نہیں کروائیں گے۔

اب کچھ بات میڈیکل سائنس کی ہو جائے۔ موصوف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سورہ رحمٰن کی مدد سے آٹزم سے نجات پانے والوں کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر پڑی ہیں جو کہ ناقابل تردید حقائق ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر تو ہر مذہب کے پیروکاروں کی ایسی کروڑوں ویڈیوز پڑی ہیں، ہندوؤں سے لے کر مسیحیوں تک اور بدھ پرستوں سے لے کر یہودیوں تک، ہر کوئی اپنی آیت، اشلوک، منتر، پوجا، یوگا اور پرارتھنا سے بیماریوں کا علاج ’منی بیک گارنٹی‘ کے ساتھ بتا رہا ہے اور اِس کا ’ثبوت‘ بھی پیش کر رہا ہے تو اب کس دعوے پر یقین کریں اور کس کو رد؟ ہارڈ ڈیٹا اسے نہیں کہتے، یہ تمام محض دعوے ہیں، اگر آج کوئی ہندو گیتا کی مدد سے، کوئی یہودی تورات پڑھ کر یا کوئی مسیحی انجیل مقدس کی تلاوت کرکے کسی شخص کی بیماری دور کرنے کا دعویٰ کرے چاہے وہ معمولی سر درد ہی کیوں نہ ہو تو میڈیکل سائنس میں بھونچال آ جائے گا، آٹزم تو بہت پیچیدہ مرض ہے، اگر اِس کا علاج یوں ممکن ہو جائے تو ایسے معالج کو طِب میں نوبل انعام دیا جائے گا۔ مگر اِس کیلئے پہلا کام یہ کرنا ضروری ہے کہ The New England Journal of Medicine کیلئے ایک مضمون لکھ کر بھیجیں تاکہ انہیں پتا چلے کہ ہمارے ملک میں کیسے کیسے ’نابغے‘ پائے جاتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ کام کوئی نہیں کرتا کیونکہ اپنے دِل میں انہیں پتا ہے کہ اُن کا ’تحقیقی مقالہ‘ سیدھا ردّی کی ٹوکری میں جائے گا۔ فلم ’پی کے‘ میں جعلی سوامی کی طرح یہ لوگ بھی رانگ نمبر ہیں جو دین فروشی کا مکروہ دھندہ کرتے ہیں۔ اصل میں یہ دنیا کے سب سے قدیم دھندے میں ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اِن کا شعبہ مختلف ہے۔

تازہ ترین