• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ سچائیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں بیان کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرتے ہوئے بڑی تکلیف ہو رہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور آئین ایک مذاق بن چکا ہے۔ جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہوئے ایک جھجک محسوس نہیں ہوتی بلکہ شرم آنے لگی ہے۔ جمہوری اور آئینی اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ عام پاکستانی کیلئے نفرت کا نشان بنتے جا رہے ہیں لیکن ان سے بات کرو تو وہ کہتے ہیں یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسکا ذمہ دار عمران خان اور تحریک انصاف ہے۔ تحریک انصاف والوں سے بات کرو تو وہ پاکستان کے مسائل کی ذمہ داری وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز پر ڈالتے ہیں۔ ایک تیسرا مکتبہ فکر بھی ہے جو کہتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں جو سیاسی عدم استحکام پھیلا ہوا ہے اسکے اصل ذمہ دار سیاستدان نہیں بلکہ غیرسیاسی لوگ ہیں جو پیچھے بیٹھ کر سیاست کو کنٹرول کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت کی کئی اہم شخصیات نجی محفلوں میں تسلیم کرتی ہیں کہ آج کل عوام میں حکومت کے خلاف نفرت کی لہر اپنے جوبن پر ہے۔ جب حکومت کے وزیروں سے پوچھیں کہ آپ تو عمران خان کو یوٹرن خان کہتے تھے لیکن اب آپ ایسے ایسے یوٹرن لے رہے ہیں کہ عمران خان تو بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ وزیر صاحبان اکتائے ہوئے لہجے میں کہتے ہیں کہ شروع شروع میں ہم نے کابینہ کے اجلاسوں میں گول مول الفاظ میں یہ کہنا شروع کیا تھا کہ ہمیں وہ غلطیاں نہیں کرنی چاہئیں جو عمران خان کی حکومت نے کیں؟ نتیجہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ جس وزیر کی کارکردگی اچھی نہیں ہو گی وہ فارغ کر دیا جائے گا لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ خاموشی سے کام کرو۔ جب پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کا مسودہ ہمارے سامنے آیا تو خیال تھا کہ وزیر اعظم صاحب اس میں کچھ ترمیم و اضافے کیلئے صحافتی تنظیموں سے مذاکرات کا حکم دیں گے لیکن انہیں یہ قانون منظور کرانےکی بڑی جلدی تھی۔ وزیر صاحبان سرگوشیوں میں ایک دوسرے کو پوچھتے رہے کہ کیا یہ وہی قانون نہیں جسے عمران خان کی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا تھا؟ کیا یہ وہی قانون نہیں جس کے خلاف شہباز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر پارلیمینٹ ہائوس کے باہر صحافیوں کے احتجاجی کیمپ میں جا کر انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا؟ ایک وزیر نے تو مجھ سے تصدیق کی کہ کیا یہ وہی قانون ہے جس کے خلاف آپ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی اور پھر مریم اورنگزیب نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس مقدمے میں آپ کیساتھ فریق بننے کا اعلان کیا؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو وزیر صاحب پریشان ہو گئے۔ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں کہا پتہ نہیں ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ پھر خود ہی بولے کہ دراصل وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب میں ایک غیرعلانیہ مقابلہ چل رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے گزشتہ سال ہتک عزت کے نام پر ایک ایسا ہی قانون صوبائی اسمبلی سے بحث مباحثے کے بغیر جلدی جلدی منظور کرایا اور کسی کا دل خوش کر دیا۔ اب وزیر اعظم صاحب نے بھی کسی کا دل خوش کرنا تھا لہٰذا انہوں نے مناسب وقت کا انتظار کیا اور جب عدلیہ میں آپریشن کلین اپ مکمل ہو گیا تو انہوں نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ء کا جھنڈا گاڑ کر اپنی بھتیجی پر سبقت حاصل کرلی۔ اب چچا اور بھتیجی یہ نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان بہت بڑا یوٹرن خان ہے۔ عمران خان کے قانون کو مزید خطرناک بنا کر مسلم لیگ (ن) نے پارلیمینٹ سے منظور کرایا ہے اور پارلیمینٹ پر یہ سیاہ قانون نافذ کرنے کا داغ لگا دیا ہے۔ آج کل مسلم لیگ (ن) روزانہ ایک یوٹرن لیتی ہے اور ہمیں عمران خان کی یاد دلاتی ہے۔ جب نواز شریف خلائی مخلوق کی مذمت کیا کرتے تھے تو عمران خان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعریفوں میں زمین وآسان کے قلابے ملاتے تھے۔ جب نواز شریف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے تھے تو عمران خان ووٹ کی عزت پامال کرنیوالوں کیساتھ گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ پھر نواز شریف، عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری نے مل کر جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون منظور کرا کے اپنی اپنی سیاست کے پائوں پر کلہاڑی چلائی۔ اس کلہاڑی نے جو زخم لگائے انہوں نے سب سے زیادہ نقصان نواز شریف کو پہنچایا۔ انکی سیاست لنگڑی ہو چکی ہے انہوں نے بھائی کو وزیر اعظم اور بیٹی کو وزیر اعلیٰ تو بنوا لیا لیکن شائد آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ سے بھی نظریں نہ ملا پاتے ہوں۔ جب بھی ان کے قریبی ساتھیوں سے پوچھو کہ کیا آپ نے آئندہ الیکشن نہیں لڑنا؟ کچھ تو یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ ہم نے ریاست کی خاطر سیاست کی قربانی دی ہے اور ایک سال کے اندر حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ وہ صاحبان حکومت جو پرانی نیاز مندی کے باعث ہمارے سامنے غلط بیانی سے ڈرتے ہیں وہ صاف صاف کہتے ہیں کہ بھائی یہ تو بقاء کی جنگ ہے ۔ اگر عمران خان واپس آ گیا تو ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا اسلئے ہم اپنی بقاء کی جنگ میں جتنے بھی یوٹرن لیں کم ہیں۔ جب ان دوستوں سے پوچھا جائے کہ الیکشن کیسے لڑو گے؟ وہ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں کہ اگلا چیف الیکشن کمشنر بھی ہماری مرضی کا آئے گا اور وہ ہمیں اگلا الیکشن بھی جتوائے گا۔ دوسری طرف عمران خان جیل میں بیٹھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بیک چینل کے ذریعے رہائی حاصل کرنا مسلم لیگ (ن) کے فائدے میں جائیگا۔ الیکشن جیتنا اور وزیر اعظم بننا ان کی ترجیح نظر نہیں آتی وہ صرف نواز شریف اور انکے خاندان نہیں بلکہ آصف علی زرداری اور انکے خاندان کی سیاست کیلئے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ریاستی اداروں نے شہباز شریف کے ساتھ مل کر پارلیمینٹ، عدلیہ اور میڈیا کو فتح کر لیا اور عمران خان کی واپسی کے راستے بند کر دیئے تو پھر عمران خان کسی کیلئے خطرہ کیسے قرار دیئے جا سکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ معاملہ عمران خان کی ذات کا نہیں رہا جس ملک میں پارلیمینٹ، عدلیہ اور آئین سے عام لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے وہاں نفرت، انتہا پسندی اور بے یقینی بہت سے راستے بنا لیتی ہے۔

اس نفرت کا راستہ روکنے کیلئے پیکا ترمیمی ایکٹ کام نہیں آتا حکمرانوں کا خیال ہے کہ نوئے کی دہائی کی کشمیر پالیسی کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔اس کشمیر پالیسی کا مقصد کشمیر کی آزادی ہے یا تحریک انصاف کے پراپیگنڈے کا توڑ کرنا ہے؟ گزارش ہے کہ ہم نے پارلیمینٹ، جمہوریت اور آئین کو تو مذاق بنا دیا اب کشمیر کو تو بخش دیں۔ خدانخواستہ ایسا وقت نہ آجائے کہ ہمیں کشمیریوں کے حق میں بات کرتے ہوئے بھی شرم آنے لگے۔ کشمیر پر بھی یوٹرن خان پیچھے رہ جائے اور یوٹرن شریف آگے نکل جائے۔

تازہ ترین