• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

حفیظ، فیض اور احسان دانش سے میرا ’’رشتہ‘‘ بہت عجیب رہا ہے اور اس سے زیادہ تعلق ان کی علالت یا وفات کے حوالے سے ہے۔ میں نے مجید نظامی صاحب سے فیض صاحب کے انٹرویو کی اجازت لی، فیض صاحب اگرچہ ماڈل ٹاؤن میں میرے ہمسائے تھے مگر ان کے حوالے سے نوائے وقت کی جو پالیسی رہی تھی وہ اتنی خوشگوار نہیں تھی، چنانچہ میں کوئی درمیانی راستہ تلاش کر رہا تھا، اس دوران شبنم شکیل نے اپنے گھر ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ جہاں فیض صاحب اور دوسرے بہت سے ادیبوں، شاعروں کے علاوہ راقم الحروف بھی مدعو تھا ، مجھے لگا شاید یہ دعوت فیض صاحب کے انٹرویو کیلئے میری دعا کی قبولیت کے نتیجے میں آراستہ کی گئی ہے۔ چنانچہ میں فیض کے پاس اٹھ کر گیا ، وہ صوفے پر بیٹھے تھے اور ان کے برابر میں بھی کوئی موجود تھا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا اور مدعا بیان کیا تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کرتے ہیں بھئی ،کرتے ہیں، کہا اور ہمنشین سے دوبارہ گفتگو میں مشغول ہو گئے۔ میں ان کے قریب گیا اور کہا ’’فیض صاحب نوائے وقت کیلئے انٹرویو‘‘ دوبارہ انہوں نے محبت بھرے لہجے میں کہا ’’کرتے ہیں بھئی کرتے ہیں‘‘ میں اس وقت ’’لیچڑ‘‘ بن گیا تھا، چنانچہ جب وہ صوفے پر بیٹھ رہے تھے اور میں نے انہیں صرف اتنا ہی کہا تھا ’’جی نوائے وقت . . . .‘‘ انہوں نے مجھے پورا جملہ بولنے ہی نہیں دیا ’’ہاں بھئی کہاں اور کب‘ اور اسی کے ساتھ ہی یہ حیران کن بات بھی کہی، میں نوائے وقت کے دفتر میں حاضر ہو جاؤں گا‘‘۔ بڑے آدمی کی ایک نشانی میرے سامنے آئی، تاہم طے پایا کہ انٹرویو فیض صاحب کے گھر پر ہی ہوگا۔ میں نے انٹرویو پینل تیار کیا وہ میرے علاوہ اشفاق احمد،عارف نظامی اور شبنم شکیل پر مشتمل تھا، ہم وہاں پہنچے تو مہمانوںکیلئے لذت کام ودہن کے معقول انتظامات دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ شنید تو یہ تھی کہ بیگم ایلس فیض بہت ’’جزرس‘‘ خاتون ہیں بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب کچھ شبنم شکیل لے کر آئی تھیں۔


یہ بہت تفصیلی اور نہایت اہم انٹرویو تھا ، ہمارے ترقی پسند دوست فیض صاحب کے بارے میں جو تاثر پھیلاتے رہتے تھے اور اسی طرح کے ان کے مخالف ان پر جو الزامات عائد کرتے تھے یہ دونوں طبقے غلط نکلے، میں تو خیر فیض صاحب کو پہلے دن ہی سے قابل فخر پاکستانی سمجھتا تھا، میں اپنے کالموں میں کبھی کبھار ان کو گدگدی کرتا رہا تھا، منیر نیازی اس گدگدی کو ہاتھ سے گدگدی کرنے کا نام دیتے تھے۔ میں نے یہ انٹرویو بہت دھوم دھام سے شائع کیا، اس کی ہیڈ لائن تھی ’’کشمیر کے بغیر پاکستان کا نقشہ مکمل نہیں ہو سکتا‘‘ یہ انٹرویو انڈین ترقی پسند وں کو کیسے راس آ سکتا تھا چنانچہ وہاں کے اخباروں میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ فیض صاحب یہ بات نہیں کہہ سکتے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکرٹری کا مجھے لندن سے فون آیا کہ آپ نے یہ کیا شائع کردیا، فیض یہ باتیں نہیں کرسکتے، مجھے ان کی بات پر ہنسی آئی کہ یہ کشمیر کے علاوہ ہمارے فیض کو بھی ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں کہا آپ لندن سے واپسی پر انڈیا جاتے ہوئے دو ایک دن کیلئے لاہور قیام فرمائیں، میں نے یہ انٹرویو ریکارڈ کیا ہوا ہے، آپ یہ باتیں خود ان کی آواز میںسن لیجئے گا ۔میں فیض صاحب کے گھر یہ اخبار ان کےلئے لے کر گیا تھا اس وقت وہ لان میں بیٹھے سگریٹ پی رہےتھے اور اپنے انٹرویو پر نظرڈالی جس کی مرکزی سرخی ہی یہی تھی کہ کشمیر کے بغیر پاکستان کا نقشہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور میں ان سے اجازت لیکر اپنے گھر کو چل دیا جو شاید ایک کلومیٹر دورتھا۔


پھر ایک دن ان کے انتقال کی خبر آئی ان کی تدفین ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں ہونا تھی مجید صاحب نے جنازے کی رپورٹنگ میرے ذمے لگائی، میں نے تو ویسے بھی جنازے میں شریک ہونا تھا ان کی تدفین تک وہیں کھڑا اس شاعر بے بدل اور اعلیٰ انسان کی یاد میں گم رہا۔ میری امی اور ابا کی قبریں بھی ان کے نزدیک ہیں اشفاق صاحب اور بانو آپا بھی وہیں ہیں میں جب والدین کے لئے فاتحہ خوانی کی خاطر ماڈل ٹاؤن قبرستان جاتا ہو ںتو ان تینوں قبروں کے سرہانے میں کھڑا ہو جاتا ہوں اور میرے لب ہلنے لگتے ہیں ۔


احسان دانش اور حفیظ جالندھری کے ساتھ زندگی میں بہت ملاقاتیں رہیں تاہم فی الحال ان کی علالت کے دوران دو مختلف زاویئے دیکھے، احسان صاحب ہسپتال میں بیڈ پر لیٹے تھے میں نے صرف اتنا پوچھا ’’احسان صاحب کیا حال ہے‘‘ اس پر انہوں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا میں پریشان ہو گیا اور کچھ دیر بعد دوبارہ ان سے پوچھا احسان صاحب کیا حال ہے وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، ان کے صاحبزادے مجھے کہنے لگے اب ان کا حال نہ پوچھیں ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ جب حفیظ جالندھری بیمار پڑے اور ہسپتال میں ایڈمٹ تھے میں ان کی عیادت کے لئے بھی گیا، بجائے اس کے کہ میں ان کا حال پوچھتا انہوں نے مجھے مخاطب کیا ’’کی حال اے منڈیا تیرا‘‘ (تیرا کیا حال ہے لڑکے) اس کے بعد انہوں نے اسی عالم میں ہی میری (بینی) کلائی پکڑ لی یہ ان کی عادت تھی اور بینی چھڑانا مشکل ہو جاتا تھا مگر اس روز ان کی بینی کی پکڑ میں وہ مضبوطی نہیں تھی میں آسانی سے چھڑا سکتا تھا مگر میں نے نہیں چھڑائی۔


ان اساتذہ سے میری ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں فیض صاحب سے صرف دو تین ملاقاتیں یاد ہیں۔ نیشنل سنٹر لاہور میں مشاعرہ تھا مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے فیض صاحب، ظہور نظر اور میرے سمیت دو تین اور لوگ مختصر سے ہال کے قالین پر بیٹھے تھے ۔ظہور نظر بہت عمدہ شاعر ہونے کے علاوہ بذلہ سنج بھی بہت تھے اور فیض صاحب کو اپنی دلچسپ باتوں اور کچھ شاعروں کی نقلوں سے محظوظ کر رہے تھے ۔ان دنوں حفیظ صاحب فیض صاحب کے خلاف صف آرا تھے مگر جونہی ظہور نظر نے حفیظ صاحب کی نقل اتارنے کی کوشش کی تو فیض صاحب یکدم سیریس ہو گئے۔ اس روز یہ شخص مجھے معمول سے بھی زیادہ بڑا لگا اس نے گوارا نہیں کیا کہ اسکے مخالف کی نقل اسکے سامنے اتاری جائے اور وہ اس سے محظوظ ہو، یہ دیکھ کر ظہور نظر نے کسی اور شاعر کے حوالے سے دلچسپ یادیں سنانا شروع کر دیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین