• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مظلوم قوموں ، طبقات اور گروہوں کے حقوق اور جمہوریت کیلئے لڑتے لڑتے بالآخر معراج محمد خان اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ۔انہوںنے ساری زندگی اپنے نظریات پر کاربند رہتے ہوئے کمٹ منٹ ، سچائی اور سنجیدہ سیاست کی ۔ وزارت ٹھکرائی اور سیاسی عہدے چھوڑ دیئے لیکن اپنی جدوجہد سے کبھی لاتعلق نہیں ہوئے ۔ انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرکے اور اپنے وجود پر پولیس کی لاٹھیاں اور ڈنڈے کھا کر اس جدوجہد سے اپنا رشتہ برقرار رکھا ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہر بڑی سیاسی تحریک میں بھرپور حصہ لیا ۔ انہیں اپنے مقصد سے عشق تھا اور عشق میں جتنے بھی سخت مقام آئے ، وہ ان سے گزر گئے ۔
آؤ کہ آج ختم ہوئی داستان عشق
اب ختم عاشقی کے فسانے سنائیں ہم
معراج محمد خان اور میرا ساتھ 50 برس سے اوپر کا ہے ۔ ہم طلبہ سیاست میں ساتھ رہے ، ہم سیاسی تحریکوں میں شریک سفر رہے ، ہم نے جیلوں میں وقت ساتھ گزارا ۔ ان سے یہ رشتہ نظریات کا تھا ۔ وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ ’’ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا ‘‘ ۔میں سیاست کے دوران ’’ تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روز گار کے ‘‘ والے معاملے میں الجھا رہا لیکن معراج محمد خان نے کبھی اپنے روزگار کا غم بھی نہیں پالا بلکہ وہ دوسروں کے غم کو اپنا غم سمجھتے رہے ۔ انہوں نے سیاست کے علاوہ کچھ اور نہیں کیا ۔اس میں ان کی بیگم زبیدہ معراج اور بیٹے خاقان محمد خان کا بھی بہت بڑا کردار ہے ۔خان صاحب کی سیاست نظریاتی تھی۔ وہ جمہوریت ، محنت کشوں ، کسانوں ، طلبہ اور دیگر مظلوم طبقات اور گروہوں کیلئے ہمیشہ لڑتے رہے ۔ انہوں نے ترقی پسندانہ سوچ اور روشن خیالی کا علم ہاتھ میں تھاما اور استحصال اور استبداد کی ہر شکل کے خلاف پرامن جدوجہد کی ۔ انہوں نے کبھی تشدد اور تنگ نظری کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ جب ہم طلبہ سیاست میں تھے تو وہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ تھا ۔ پوری دنیا میں طبل آزادی بج رہے تھے ۔ سامراج مخالف اور جمہوری تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں اور ان تحریکوںمیں غیر معمولی لوگ پیدا ہو رہے تھے ۔ معراج محمد خان انہی لوگوں میں سے ایک تھے ۔ ان میں غیر معمولی قائدانہ صلاحیتیں تھیں ۔ انہوں نے طالب علم رہنما ہونے کیساتھ ساتھ سیاسی حلقوں میں اپنے آپ کو ایک فلسفی اور دانشور کے طور پر بھی منوایا ۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ( این ایس ایف ) کے پلیٹ فارم سے جب انہوں نے سیاست کی تو جلد ہی وہ آگے والی صفوں میں آ گئے اور این ایس ایف کے صدر کا عہدہ حاصل کیا ۔
ایوب خان کے سخت گیر مارشل لاء کا وہ زمانہ ہمیں یاد ہے ، جب کوئی بھی آمریت کے خلاف بات نہیں کر سکتا تھا ۔ ہر طرف مکمل سکوت تھا اور قبرستان جیسی خاموشی تھی ۔ معراج محمد خان نے اس خاموشی کو توڑا اور اس کیلئے ایک راستہ نکالا ۔ انہوں نے بھارت کے شہر جبل پور میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس احتجاج سے انہوں نے لوگوں کے دلوں میں مارشل لاء کا خوف ختم کیا اور ان میں سڑکوں پر آنے کی جرات پیدا کی ۔ یہ احتجاج آمریت کے خلاف تحریک کا نقطہ آغاز ثابت ہوا ۔ ایوبی مارشل لاء کے خلاف پہلی بلند آواز معراج محمد خان کی تھی ۔ مارشل لاء کی ایک سال قید با مشقت سزا ہوئی جو ایک لحاظ سے ایوب مارشل لاء کا پہلا سیاسی قیدی بنا۔انہوں نے نہ صرف جمہوریت کی بحالی کیلئے بھرپور جدوجہد کی بلکہ طلبہ کے حقوق کیلئے بھی زبردست تحریکیں چلائیں ۔ ان میں تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف تحریک ، یونیورسٹیز آرڈی ننس کے خلاف تحریک ، طلبہ یونین کی بحالی کیلئے تحریک اور طلبہ کو دیگر مراعات دلانے کیلئے تحریکیں شامل ہیں ۔ انہوں نے طالبعلم لیڈر کی حیثیت سے محنت کشوں کی مختلف تحریکوں میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ۔
1967 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو معراج محمد خان کی عمر اس وقت صرف 29 سال تھی اور وہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے بلند قامت ترقی پسند سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے جوانی میں ہی پاکستان کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا ۔ وہ نہ صرف پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے بلکہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ایسے قابل اعتماد مشیر تھے ، جنہیں بعد ازاں بھٹو نے اپنا جانشیں مقرر کرنے کا اعلان کیا ۔ ایوب خان کے دور میں وہ کئی بار جیل گئے اور دو مرتبہ شہر بدر بھی ہوئے ۔ کراچی اور خیرپور کی جیلوں میں ہمارا ساتھ رہا ۔ شہر بدری کی سزا بھی ہم نے ایک ساتھ بھگتی ۔ ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ نے اقتدار سنبھالا تو معراج محمد خان آمریت کے خلاف اپنی ڈگر پر قائم رہے ۔ ان کا سیاسی قد کاٹھ بہت بلند ہو چکا تھا ۔ یحییٰ خان کے زمانے میں جب ون یونٹ توڑنے اور پاکستان کے صوبوں کی بحالی کیلئے جدوجہد تیز ہوئی تو میں تاریخ کے ایک اہم واقعہ کا گواہ ہوں ۔ کراچی کے بہت بڑے صنعت کاروں اور تاجروں نے معراج محمد خان سے کہا کہ وہ مہاجروں کی سیاست کریں اور کراچی صوبے کی بات کریں ۔ معراج محمد خان اگرچہ قوموں اور لسانی گروہوں کے حقوق کے حامی تھے لیکن وہ بنیادی دھارے کی سیاست سے الگ نہیں ہونا چاہتے تھے ۔ لہذا انہوں نے اس بات سے انکار کر دیا اور پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی عوامی جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کیا ۔ پیپلز پارٹی جب برسراقتدار آئی تو ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں محنت و افرادی قوت کا وفاقی وزیر بنا دیا کیونکہ بھٹو سمجھتے تھے کہ محنت کشوں کے مسائل کو معراج محمد خان سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی کراچی میں مزدوروں کی ایک بہت بڑی ہڑتال ہوئی ۔ معراج محمد خان نے ساری زندگی مزدوروں کے حقوق کیلئے جدوجہد کی تھی اور ان کا مزدور تنظیموں اور ٹریڈ یونینز میں بڑا احترام تھا ۔ وہ مزدوروں کو ہڑتال ختم کرنے کیلئے قائل کرتے تھے لیکن پھر کچھ نادیدہ قوتیں مزدوروں کو دوبارہ ہڑتال پر اکساتی تھیں ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ بھٹو شہید کی کابینہ کے کچھ اہم لوگ اس ہڑتال کو بھٹو کی نظروں میں معراج محمد خان کی پوزیشن خراب کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہتے تھے اور اس ہڑتال کی وجہ سے واقعتاً بھٹو شہید اور معراج محمد خان میں فاصلے پیدا ہو گئے ۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کی بعض پالیسیوں سے معراج محمد خان کا اختلاف بڑھتا گیا اور وہ حکومت اور پارٹی کو چھوڑنے والے پہلے لوگوں میں تھے ۔ان کا کہنا یہ تھا کہ جس پیپلزپارٹی میں وہ شامل ہوئے تھے ، اب وہ پارٹی نہیں رہی ۔ شہید بھٹو کو جیل کی کال کوٹھڑی میں یہ احساس ہوا کہ پیپلز پارٹی وہ نہیں رہی ، جس کا اظہا رانہوں نے چوئن لائی کو لکھے گئے خط میں کیا ۔ جب معراج محمد خان حکومت سے باہر آئے تو ان کے ساتھیوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ اقتدار معراج محمد خان کو ان کے نظریات اور اصولوں سے نہیں ہٹا سکا ۔ پھر وہی عشق کے امتحان شروع ہوئے ۔ شہید بھٹو کے دور میں ہی معراج محمد خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے ۔ 1977 میں ضیاء الحق کا مارشل لاء لگنے کے بعد ان کی رہائی ہوئی۔
یہاں سے معراج محمد خان کی سیاست کا ایک نیا عہد شروع ہوتا ہے ۔ انہوں نے قومی محاذ آزادی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی اور پھر سے آمریت کے خلاف جدوجہد شروع کر دی ۔ تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) میں معراج محمد خان صف اول میں موجود تھے اور انہوں نے ضیاء الحق کا زمانہ جیلوں میں گزارا ۔ ضیاء الحق کا مارشل لاء ختم ہوا تو انہوں نے جمہوری حکومتوں سے کوئی حکومتی عہدہ لینے کی کوشش نہیں کی ۔ معراج محمد خان نے تحریک انصاف میں بھی شمولیت اختیار کی ۔ وہ اسے پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعت بنانا چاہتے تھے ، جیسی پیپلز پارٹی اپنے ابتداء میں تھی لیکن وہ عمران خان کے ساتھ نہ چل سکے ۔ پھر وہ عمر کے ایسے حصے میں پہنچ گئے ، جب استقامت کے ساتھ نظریات پر قائم رہنے کیلئے صرف جان کا قرض چکانا ہوتا ہے ۔ وہ اپنے آخری انٹرویوز ، بیانات اور تقریروں میں بس یہی بات کہتے رہے کہ
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
تازہ ترین