• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سدا بہار گانوں کا اِک دیوانہ: ماسٹر منظور رند

اُن کے پاس 1500 سے زائد نایاب گانے محفوظ ہیں، غیر مُلکی ریڈیو پروگرامز کے لیے بھی اُن سے مدد لی جاتی تھی
اُن کے پاس 1500 سے زائد نایاب گانے محفوظ ہیں، غیر مُلکی ریڈیو پروگرامز کے لیے بھی اُن سے مدد لی جاتی تھی 

بلوچستان کے خانہ بدوش وقت گزاری کے لیے پہاڑوں اور اپنی تنہائی سے گفتگو کرتے ہیں یا پھر لوک شاعری سے دل بہلاتے ہیں۔ 18ویں صدی میں ریڈیو نشریات کا آغاز ہوا، تو شاعری نے موسیقی کے ساتھ انگڑائی لینا شروع کی اور انسانی جذبات کی ایک نئے انداز سے ترجمانی سے شروعات ہوئی۔ شہروں کے ساتھ، ریڈیو نے دُور دراز علاقوں تک رسائی حاصل کی، تو معمولاتِ زندگی میں تبدیلی کے نئے دَر وا ہوئے۔

آغاز میں تو اِس حیرت انگیز ایجاد سے چند صاحبِ حیثیت لوگ ہی واقف تھے یا ریڈیو سیٹ خریدنے کی سکت رکھتے تھے۔ لوگ ریڈیو سیٹس کے گرد مجمع لگائے بیٹھے ہوتے اور خبریں یا گانے وغیرہ سُنتے، پھر جب ریڈیو کی خرید و فروخت عام ہوئی، تو سب نے اپنے اپنے انداز سے ریڈیو سیٹ سجانے شروع کیے۔ کشیدہ کاری سے اُن کے پوش بنائے جاتے، تو لوگ اُنھیں سائیکل کے ہینڈل یا بغلوں سے لٹکائے آتے جاتے نظر آتے۔ 

فلمی دنیا کے آباد ہونے سے جانکاریوں میں اضافہ ہوا۔ بلاغت اور بلوغت کا سفر ایک ساتھ طے ہوا، مگر سب کچھ تہذیب وتمدّن کے دائرے ہی میں ہوتا۔لوگ ہلّڑ بازی سے ابھی آشنا نہیں ہوئے تھے کہ رشتوں اور تعلقات کی بنیادیں انتہائی مستحکم تھیں۔ ریڈیو کی جادوگری میں محض احساسات و جذبات کو اہمیت حاصل تھی۔ ریڈیو سے گانوں کے فرمائشی پروگرام شروع ہوئے، تو زیادہ تر نوجوان اُن کا حصّہ بنے۔ 

وہ خط لکھتے یا کسی سے لکھوا کر بھیجتے اور ریڈیو سے کان لگائے اپنی فرمائش کے ساتھ اپنا نام سُننے کا بے چینی سے انتظار کرتے۔ انتظار کی یہ لذّت، فرمائش پوری ہونے کی صُورت نہایت خوش کُن ثابت ہوتی۔ جس کی فرمائش پوری ہوتی اور نام پکارا جاتا، وہ دوستوں میں سینہ پُھلا کر بیٹھتا۔ایسی معصومانہ کہانیاں اب خواب لگتی ہیں۔ اُس دَور کو گزرے زمانہ ہوا، مگر اُنہی خوابوں میں زندہ رہنے والے بعض دیوانے آج بھی کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں اور ایسا ہی ایک دیوانہ، کوئٹہ کے ماسٹر منظور رند ہیں۔

منظور رند اپنے دوستوں کے ساتھ سُر سنگیت کی محفلیں سجائے نظر آتے ہیں۔وہ چھے دہائی قبل کے اپنے بچپن اور اپنے والد، ماما واحد بخش کی شوقیہ الغوزہ بجانے کی یادوں کاتذکرہ کرتے ہوئے آب دیدہ ہو جاتے ہیں۔ اُس زمانے کو سچّے انسانوں کی، انسانی اقدار کے ساتھ پختہ وابستگی سے موسوم کرتے ہیں۔ اُن کا آبائی علاقہ شوران، ضلع کچھی ہے۔ والد جیل وارڈن تھے اور ملازمت کے سلسلے میں اُن کا بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔

اُن دنوں ایک شہر سے دوسرے شہر نقل مکانی کرتے وقت زادِ راہ میں ایک اہم چیز ریڈیو سیٹ ہوا کرتا، جسے اُٹھانے کی سب کو فکر ہوتی۔اُس دور میں ہر شخص بانسری، چنگ (ایک مقامی موسیقی کا آلہ) اور ڈھول کی تھاپ پر چھاپ (رقص) میں مہارت رکھتا تھا۔ پھر تہواروں، خاص طور پر شادی بیاہ کے موقعے پر رشتے دار مل کر اپنی اس مہارت کا اظہار کرتے۔ بعض مزاحیہ کردار بھی اس طرح کی محفلوں اور تقریبات کی جان ہوا کرتے تھے۔ وہ لوگ خاص پڑھے لکھے تو نہیں تھے، مگر پُرامن رہنے کے فن سے واقف تھے۔ اُنہیں ہمیشہ رشتوں کے تقدّس کا خیال رہتا۔

مگر جیسے جیسے معاشرے میں دراندازی شروع ہوئی، سب کچھ بکھر کر رہ گیا۔جنگی روایات کے مطابق عام انسانوں کا احترام لازمی تھا، قبائلی یا خاندانی تنازعات کی بھی اخلاقیات ہوا کرتی تھیں۔ معمولی باتوں پر ایسی خون ریزیاں نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی برسوں پر محیط دشمنیاں ہوتیں۔ بہرکیف، ماسٹر منظور میٹرک کے بعد شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ کچھ عرصہ مارکر فیکٹری میں ملازم رہے۔ 

موسیقی اور پڑھائی کا جنون ساتھ رہا۔ آخر کار، ٹیچر بھرتی ہوئے اور سپروائزر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ زندگی کے اِس سفر میں موسیقی سے کسی بھی صُورت ناتا نہیں ٹوٹا۔ ریڈیو تہران، ریڈیو سیلون اور ریڈیو کابل کے فرمائشی پروگرامز کا حصّہ رہے۔ تن خواہ سے ہمیشہ کچھ رقم الگ کرکے شوق پورا کرتے۔ اِس طرح اُس وقت کے ٹیپ ریکارڈرز، کیسٹس اور گراموفونز کا ایک نایاب خزانہ اُن کے پاس جمع ہوگیا۔

اُن کے پاس پندرہ سو سے زائد نایاب گانوں پر مشتمل گراموفون ریکارڈز ہیں، جن کی مالیت لاکھوں روپے بنتی ہے۔ اچھی یادیں، اچھے دن کمانے والے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے اور ماسٹر منظور اُنہی افراد میں شامل ہیں۔ ہم نے اُن کی محفل میں آنے والے نوجوانوں کو حیرت زدہ ہی دیکھا۔ یوں لگتا، جیسے کہہ رہے ہوں، کیا ایسے پُرسکون اور اچھے دن ہمیں بھی نصیب ہوسکیں گے۔

ماسٹر منظور کا کہنا ہے کہ’’جب طبیعت بوجھل ہو، تو طلعت محمود کا گانا ’’تیری آنکھ کے آنسو پی جاؤں، ایسی میری تقدیر کہاں‘‘سُنتا ہوں۔ اُن کے گروپ میں قیوم سومرو، ملک حفیظ، ڈاکٹر عنایت کُرد، وحید دہوار، رمضان لانگو، قاضی سرور، ٹکری اعظم، رحیم رئیسانی، سخی قادر دہوار، منان محمّد شہی، محمّد دین مینگل اور دیگر شامل ہیں، جن کی باقاعدہ ہفتہ وار، تو کبھی ماہ وار بیٹھک سجتی ہے، جس کے دَوران گھنٹوں بُھولے بسرے گانے سُنے جاتے ہیں اور نماز کے وقفے کے علاوہ، کوئی وقفہ بیچ میں نہیں آتا۔ 

فلمی گانوں کے علاوہ نایاب قوالیاں، بلوچی، براہوی اور پشتو کے گراموفون ریکارڈ کا ذخیرہ بھی اُن کے پاس ہے، جن میں بلوچی اور براہوی کے ممتاز گلوکاروں، موسیقاروں استاد جاوڑک، فیض محمّد بلوچ، حضور بخش مستانہ، کریم بخش بابل، سبزل سامگی، شریفہ سوتی، محمّد علی، سلام بلوچ، ولی محمّد بلوچ، خدا بخش سالک اور پشتو بیلتون کے آئٹمز بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

ایک زمانے میں کوئٹہ کے کئی ہوٹلز ایک چائے کی پیالی پر فرمائشی گانے سُنوایا کرتے تھے اور گانے سُننے کے شائق دن میں کئی کئی مرتبہ اپنا پسندیدہ گانا سُننے کے لیے ان ہوٹلز کا رُخ کرتے۔ گانے کے بول ایک رقعے پر لکھ کر ویٹر کے ہاتھ کاؤنٹر پر بھجواتے اور پھر اُن کا مَن پسند گانا نشر ہوتا۔ بعدازاں، کچھ دیر بیٹھ کر پُرسکون ہوکر گھر کی راہ لیتے۔ یہ روایت کوئٹہ کے آٹھ کے قریب سینماؤں کے بند ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ویسے بھی شہر میں اب ہوٹلنگ کا کلچر نہیں رہا، اس کی جگہ فوڈ پوائنٹس نے لے لی ہے یا پھر چائے تک محدود ہوٹلز ہیں۔ 

ماسٹر منظور رند کہتے ہیں کہ’’مُلک میں اب یہ کلچرنہیں رہا۔ نئی نسل کو بم دھماکوں کے کلچر کا تحفہ دیا جارہا ہے۔ خون اور بربریت کی نفسیاتی الجھنوں سے نکلنے اور عافیت کے چند لمحات کے لیے مُلک بَھر میں ایسے گروپس ہیں، جو بھولے بسرے گانوں کی محفلیں سجاتے ہیں۔ لاہور میں مردان احمد خان اور امتیاز کا گروپ ہمارے رابطے میں ہے۔ سندھ میں لطیف لغاری، غلام نبی جھلن، عطا محمّد چانیو، غلام علی ڈاہری، علی محمّد سولنگی، وسطڑو، عالم وسطڑو، حاجی عتیق اللہ عثمانی،علی محمّد سولنگی و دیگر ہیں۔ 

کوئٹہ، سندھ اور حب چوکی میں ہم دوستوں کی جانب سے شائقین کے لیے بھولے بسرے گانوں کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ ہمارے بزرگ راگوں سے آگ لگ جانے یا بارش ہونے کے قصّے بیان کرتے تھے، جب کہ ہم نے تو چھوٹی موٹی بیماریوں سے مریض کو سکون حاصل کرتے بھی دیکھا ہے۔ تاہم، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب شادی بیاہ کے مواقع پر بھی موسیقی کی بجائے گولیوں کی تڑتڑاہٹ سُننے کو ملتی ہے اور گولیاں لگنے کے واقعات بھی عام ہیں۔ پھر یہ کہ اب موسیقی میں ہلڑ بازی کا عُنصر بھی شامل ہو چُکا ہے۔ 

پرانے گانوں، مدھم موسیقی سے قلبی سکون ملتا ہے اور تربیت یافتہ فن کار سخت ریاض سے گزر کر ہی دِلوں پر راج کرتے تھے، جب کہ آج اِدھر گانا سُنتے ہیں، اگلے دن بھول جاتے ہیں اور یہ سب مشرق پر مغرب کے غلبے کے سبب ہے۔یہ سطحی سرمایہ دارانہ نظام کا ظالمانہ رویّہ ہے۔

حالاں کہ ہم دوبارہ اپنے اصل سے مل سکتے ہیں اور کسی راہ بُھولے شخص کی طرح گھر لَوٹ سکتے ہیں۔ بس، حکومتی سطح پر اقدار کی نگرانی و نگہہ بانی کا احساس پیدا ہونے کی دیر ہے کہ نصف صدی سے زائد پسند کیے جانے والے سدا بہار گانے اور گلوکار ہی ہماری اصل میراث ہیں۔‘‘

ماسٹر منظور جیسوں کی لائبریریز کسی اَن مول خزانے سے کم نہیں، لہٰذا اُنھیں باقاعدہ اکیڈمی کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ منظور رند نے بتایا کہ’’ مَیں ایک مرتبہ کچھ نایاب گانوں کے کیسٹس بیرونِ مُلک سے خرید کر لایا، تو کسٹم اہل کاروں نے اُنہیں ضبط کرنے کی کوشش کی۔ مَیں نے اعلیٰ حکّام سے کہا کہ علم اور فنونِ لطیفہ کی سرحدیں نہیں ہوتیں، تو کافی بحث مباحثے کے بعد وہ قائل ہوئے، جب کہ آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے بھی یہ بات ثابت کردی ہے۔سو، ہمیں خوابِ خرگوش سے جاگنا ہوگا، امن کی صُورتیں نکالنی ہوں گی۔

زندگی سے برتاؤ اور جینے کا ہنر فراہم کرنے والے ہنرمندوں، شاعروں، ادیبوں، فن کاروں اور مفکّرین کی سرپرستی کرنی ہوگی کہ یہی وہ لوگ ہیں، جو اداروں سے بڑھ کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘اد رہے، کئی مرتبہ ریڈیو سیلون نے کسی گانے کی فرمائش پر عدم دست یابی کے سبب معذرت کی، تو ماسٹر منظور ہی نے نایاب گانوں کی فراہمی میں اُن کی مدد کی۔ 

وہ اکثر کہتے ہیں کہ’’ اگر مُلک میں نایاب اشیاء رکھنے والوں کی پذیرائی نہ ہوئی، تو ماضی کی نشانیاں ایک ایک کرکے مِٹتی چلی جائیں گی، سیّاحت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے اور قوموں کی اصل شناخت چِھن جانے سے تہذیب وتمدّن کا جو خلا پیدا ہوگا، اُس کے ذمّے داروں کو نئی نسل کبھی معاف نہیں کرے گی۔‘‘