• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: نمرہ خان

ملبوسات : SAB TEXTILE BY FARRUKH ALI

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر

کوآرڈی نیشن: کامران خان

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

ایک معروف کہاوت ہے، ’’اگر آپ کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہیں، جو آپ کی زندگی بدل کے رکھ دے، تو آپ کو آئینہ دیکھنا چاہیے۔‘‘ بلاشبہ جب تک کوئی انسان خُود اپنی زندگی بدلنے کا فیصلہ نہ کرے اور اُس فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے کوئی پیش قدمی نہ ہو، تو دنیا کی کوئی طاقت اُس کی زنگ خوردہ، یک سانیت زدہ، بورنگ یا روتی بسورتی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتی۔ اور، جو لوگ شاہ راہِ حیات پر رستے بدل بدل چلنے، نت نئے مشاہدات و تجربات کرنے، خطرات مول لینے سے کتراتے، گھبراتے ہیں۔ 

ایک سی لگی بندھی زندگی گزارنے کے عادی بن بیٹھتے ہیں، وہ پھر کارگاہِ ہستی کی کئی رنگینیوں، رنگا رنگیوں، دل کشیوں، دل فریبیوں سے بھی محروم ہی رہتے ہیں۔ ایک فلسفی کا تو یہ تک ماننا ہے کہ ہمیں نت نئے ملبوسات و لوازمات پر رقم لُٹانے کی بجائے وہی رقم گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے، مطلب سیر و سیاحت پر خرچ کرنی چاہیے کہ پوشاکیں بدلنے سے کہیں بہتر امر جگہیں بدلنا ہے۔ یوں بھی سفر محض وسیلۂ ظفر ہی نہیں، یہ قلب و ذہن کو وسعتِ پرواز بھی عطا کرتا ہے۔ اور..... سوچ وسیع ہوجائے، تو امکانات کے دَر آپ ہی آپ وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔

سوچ کی وسعت، تصورات و خیالات کی بھرمار و یلغار اور پھر عمل، کچھ کر گزرنے کی قدرت و صلاحیت ہی نے آج دنیا کو کہاں سے کہاں لاکھڑا کیا ہے۔ پتّوں سے تن ڈھانپتا، جڑی بوٹیوں سے پیٹ بھرتا، پہاڑوں، غاروں کا مکیں انسان آج مریخ پر جا بسنے کو کمربستہ ہے۔ کون سا شعبۂ حیات ہے، جسے دیکھ کے بے اختیار لبوں پر نہیں آتا ؎ بازیچۂ اطفال ہے دنیا مِرے آگے..... ہوتا ہے شب و روز تماشا مِرے آگے..... ہے موجزن اِک قلزم خوں، کاش یہی ہو..... آتا ہے ابھی دیکھیے، کیا کیا مِرے آگے۔ 

وہ کیا ہے کہ ’’مُلّا کی دوڑ مسجد تک‘‘ ہمیں لمبی چوڑی تمہیدوں، پہیلیوں، فلسفیوں، ساری گھمّن گھیریوں کے بعد الٹ پِھر کے آنا تو ’’اسٹائل بزم‘‘ ہی کی طرف ہوتا ہے۔ وہی البیلی ناریوں، الہڑ دوشیزائوں، رُوپ کی رانیوں، پرستان کی پریوں، لڑکیوں بالیوں کے رنگ و انداز، بنائو سنگھار ، اُن کی ایک الگ ہی دنیا کی باتیں۔ جہاں زنگ خوردگی، فرسودگی و بوسیدگی، کہنگی اور یک سانیت کا گویا تذکرہ بھی ممنوع ہے۔ ہر روز کچھ نیا، ہر دن کچھ مختلف و منفرد چاہیے۔ 

جو پہلے کسی نے دیکھا، چُھوا، پہنا اوڑھا ہو اور نہ ہی آج دن تک کسی کی وہاں تک دسترس و رسائی ہو۔ ایویں ای تو ٹیکسٹائل کمپنیز، فیبرک مینوفیکچررز، ڈریس ڈیزائنرز کی چاندی نہیں ہوگئی ناں۔ خصوصاً پاکستان میں تو ٹیکسٹائل اینڈ گارمنٹ مینوفیکچرنگ5 انتہائی منافع بخش بزنسز میں شامل ہے۔ ارے، بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ 

یوں بھی ’’سانوں کیہہ‘‘( ہمیں کیا؟) کہ ہمارے یہاں کی تو زیادہ تر لاڈو پریوں کی آرائش و زیبائش، زیب و زینت، سولہ سنگھار کے اخراجات کی ذمّے داری، بیڑہ مَردوں (باپ، بھائی، شوہر، بیٹے وغیرہ) نےاُٹھا رکھا ہے۔ جو خُود کما کے پہنتی ہیں، وہ بےچاریاں تو پھر کئی کمپرومائزز کربھی لیتی ہیں۔

یوں تو میکسیز کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ ہی رواج میں رہی ہیں، لیکن پچھلے ایک دو سالوں سے لانگ فراکس اور میکسیز ایک بار پھر فیشن میں بہت ہی اِن ہیں۔ عام کیژول سی گیدرنگز سے لے کر شادی بیاہ کی تقریبات تک میں زیادہ تر نوعُمر لڑکیاں، نوبیاہتا دلہنیں اسی رُوپ سروپ میں جلوہ گر ہو رہی ہیں۔ ایک تو اس اندازِ انتخاب سے شخصیت، سراپے کو چار چاند لگ جاتے ہیں، جاذبیت و دل کشی، اسمارٹنیس بڑھ جاتی ہے۔ 

دوم، تقریب کسی بھی نوعیت کی ہو، ملبوس سب سے نمایاں، حاوی ہی دکھائی دیتا ہے۔ تو لیجیے، آج ہماری بزم تقریباً ایک ہی انداز کی، لیکن مختلف اور قدرے سوخ و شنگ رنگوں سے تیار کردہ میکسیز ہی سے مرصّع ہے۔ لائٹ گولڈن رنگ سے پیرٹ گرین، بلڈ ریڈ اور رائل بلیو رنگ تک کی یہ نفیس و حسین سی میکسیز آپ کی بھی کسی بھی تقریب کا حُسن دوبالا کرسکتی ہیں۔ ایک بار ذرا کر تو دیکھیں۔ بہت ممکن ہے، کانوں میں دُور تک ایک ہی صدا گونجتی رہے؎ اُس کا پیچھا کیا، تو راز کُھلا..... اِک پری بھی زمیں پہ رہتی ہے۔