امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکومتی افسران کو برطرف کرنے کے اختیارات کا پہلا بڑا قانونی امتحان سامنے آ گیا، ٹرمپ انتظامیہ وفاقی جج کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ وفاقی جج کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے جو انہوں نے ہیمپٹن ڈیلنگر کو دوبارہ ان کے عہدے پر بحال کرنے کے حق میں دیا ہے۔
خیال رہے کہ ہیمپٹن ڈیلنگر وفاقی ایجنسی آفس آف اسپیشل کونسل (او ایس سی) کے سربراہ ہیں، وہ ایک آزاد ادارے کی قیادت کرتے ہیں جو حکومتی بدعنوانیوں، اخلاقیات کی خلاف ورزیوں اور سرکاری ملازمین کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے، یہ عہدہ محکمۂ انصاف کے خصوصی مشیر سے الگ ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ہیمپٹن ڈیلنگر کو 7 فروری کو بذرریعہ ای میل بغیر کسی وجہ کے فوری طور پر برطرف کر دیا تھا، تاہم ہیمپٹن ڈیلنگر نے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا، جس کے نتیجے میں ضلعی عدالت کے جج ایمی برمن جیکسن نے ان کی عارضی بحالی کا حکم جاری کر دیا تھا۔
بعد ازاں اپیلز کورٹ کے ججوں نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست مسترد کر دی تھی، جس کے بعد معاملہ اب سپریم کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صدر کو حکومتی افسران کو برطرف کرنے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے اور کسی بھی وفاقی جج کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ صدر کی انتظامی طاقت میں مداخلت کرے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے وکیل قائم مقام سولیسیٹر جنرل سارہ ایم ہیرس نے دائر درخواست میں کہا ہے کہ یہ عدالت نچلی عدالتوں کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ عارضی احکامات کے ذریعے صدر کے اختیارات سلب کریں اور انہیں مجبور کریں کہ وہ کسی عہدیدار کو اپنی مرضی کے خلاف برقرار رکھیں۔
دریں اثناء ہیمپٹن ڈیلنگر اور ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کی برطرفی قانونی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ 2024ء میں جب انہیں سینیٹ کی منظوری سے تعینات کیا گیا تھا تو ان کے عہدے کی مدت 5 سال کے لیے طے کی گئی تھی۔
امریکی قانون کے مطابق صدر کسی آزاد ادارے کے سربراہ کو صرف غفلت، نااہلی یا سنگین بدعنوانی کی بنیاد پر برطرف کر سکتے ہیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے انہیں برطرف کرنے کی کوئی قانونی وجہ نہیں بتائی، اس ضمن میں سپریم کورٹ کے قدامت پسند ججوں کی اکثریت ماضی میں صدر کے انتظامی اختیارات کو وسعت دینے کے حق میں فیصلے دے چکی ہے۔
اس کیس میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ عدالت صدر کو سرکاری افسران کو برطرف کرنے کا مکمل اختیار دے دے، اگر ٹرمپ کی دلیل تسلیم کر لی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ مستقبل میں صدر کو کسی بھی آزاد حکومتی ادارے کے سربراہ کو برطرف کرنے کا لامحدود اختیار حاصل ہو جائے گا، جو امریکی انتظامی ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی ہو گی۔
کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ 1935ء کے تاریخی فیصلے Humphrey’s Executor v. United States کو ختم کر دیتی ہے تو یہ وفاقی حکومت کی ساخت کو انتہائی کمزور کر دے گا اور صدر کو ایک طاقتور ترین انتظامی قوت فراہم کر دے گا، یہ کیس صدر ٹرمپ کے اختیارات کا ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ کیس صدر ٹرمپ کے اختیارات کا ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے، اگر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا تو وہ مستقبل میں دیگر آزاد حکومتی اداروں کے سربراہان کو بھی باآسانی برطرف کر سکیں گے، جبکہ اس کے مخالف فیصلہ امریکی صدور کے اختیارات کو محدود کر دے گا۔
امریکی سپریم کورٹ آئندہ چند دنوں میں اس مقدمے پر اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔