ہم تضادستانی بھی عجیب لوگ ہیں نہ جمہوریت کو موقع دیتے ہیں اور نہ مارشل لا کو پسند کرتے ہیں۔ ہائبرڈ نظام میں اپنی حدود میں نہیں رہتے اور یوں کبھی نظام کو واضح سمت میں چلاہی نہیں پاتے۔ ملک میں اس وقت ایک آئینی حکومت ہے، سپریم کورٹ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عدالتوں نے بیشتر فیصلے تحریک انصاف کے خلاف کئے ہوں مگر کئی فیصلے تحریک انصاف کے حق میں بھی آئے ہیں۔ مارشل لا ہوتا تو نہ وکیل پیش ہوتے، نہ جیلوں میں ملاقاتی جا سکتے، نہ فیصلوں کا انتظار ہوتا، لہٰذا مظلوموں اور حاکموں، ہر دو طبقات کے مفاد میں ہے کہ جمہوریت کو موقع دیں۔ دنیا کا دستور ہے کہ ملک کا طاقتور ترین طبقہ ہمیشہ ملکی حالات سے غیر مطمئن رہتا ہے اور اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے زور پر ملک کی باگ ڈور سنبھال لے۔ حکومت اپنی خامیوں اور کمزوریوں سے طاقتور طبقے کو ناراض کرتی اور شکایت کا موقع دیتی رہتی ہے اور دوسری طرف اپوزیشن اپنی کج فہمی کی بنیاد پر کمزور حکومت کو گرانے کے منصوبے بناتی رہتی ہے لیکن یہ نہیں سوچتی کہ کمزور حکومت گرگئی تو پھر کیا ہوگا؟ ان کی حکومت پھر بھی نہیں آئے گی بلکہ طاقت ور مارشل لا آجائے گا۔ تیسری طرف طاقتور یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ یہ کمزور سیاسی حکومت ان کیلئے پردے کا کام دے رہی ہے وگرنہ پاکستان کے مخالف تو اسے ایک گیریژن اسٹیٹ (چھائونی کی ریاست) سکیورٹی ریاست اور فوجی ریاست جیسے طعنے دیتے رہتے ہیں، اگر یہ پردہ ہٹ جائے تو ان کے الزامات درست ثابت ہو جائیں گے گویا ریاست کے سارے اسٹیک ہولڈرز کو ٹرمپ دور کے نازک ترین حالات میں ہوشمندی اور تدبر سے کام لینا ہو گا۔
آج کل تو رواج ہے کہ ہر بات کو غیر آئینی، غیر قانونی، ظالمانہ اور جابرانہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ کہنا بھی عام ہوگیا ہے کہ ایسا ظلم و ستم تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ یہ بُھلا دیا جاتا ہے کہ کمیونسٹوں کو ریاست نے کس کس طرح چن چن کر اور گھیر کر ان کی سانسیں تک بند کردی تھیں، اُن میں آ دھے سے زیادہ نیم پاگل ہوگئےتھے۔ پھر جماعت اسلامی پر سخت وقت آیا، پیپلز پارٹی کے جیالوں نے کوڑے، جیلیں اور پھانسیاں بھگتیں، نون نے بھی تشدد اور اسیریاں برداشت کیں، تحریک انصاف پر بھی مشکل ترین وقت آیا اور اب بھی ہے مگر وہ ماضی کےکسی واقعے کو خاطر میں نہیں لاتے، اکیلے ہیرو بنتے ہیں جو اس ملک کی تاریخ سے مکمل لاعلمی کے مترادف ہے۔
حالیہ دنوں میں ایک واقعے نے میرے کان کھڑے کردیئے ہیں اور مجھےاس کمزور ترین سیاسی حکومت پر بھی آسیب کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی نے ایک ماہ پہلے پارلیمانی روایات اور قانون کے مطابق سینیٹر اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے مگر اس پر عمل نہ ہوا اب وہ ایک ماہ سے سینٹ کے اجلاس کی صدارت نہ کرکے شاید خاموش احتجاج یا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ جمہوریت کو موقع دیں پارلیمان کو اس کے قوانین اور روایات کے مطابق چلنے دیں۔ کیا ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوگی؟ ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ یہ پارلیمان اور سینٹ بے بس ہیں؟ کیا ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت دراصل کوئی اور چلا رہا ہے؟
مجھ عاجز کو نامراد عاشق سمجھ لیجئے۔ مجھے لیلیٰ کا عاشق قَیس یا مجنوں، ہیر کا رانجھا، سوہنی کا مہینوال، صاحباں کا مرزا، سسی کا پنوں یا جولیٹ کا رومیو سمجھ لیں۔ عاشق اپنی محبوبہ کے عشق میں لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، میری محبوبہ جمہوریت ہے، یہ کمزور ہو یا مضبوط، یہ مصنوعی ٹانگوں پر کھڑی لولی لنگڑی ہو، اس کی زبان پر تالے لگے ہوں یا یہ گونگی ہو تب بھی میری تو محبوبہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایک ایسا دن ضرور آئے گا جب باقی دنیا کی طرح میڈیا کی آزادی، مضبوط پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کی پابند مضبوط جمہوریت یہاں بھی آئے گی اس لئے مجھے اس کمزور جمہوریت کے اسٹیک ہولڈرز سے توقع ہے کہ چیئرمین سینٹ یوسف رضاگیلانی کے پروڈکشن آرڈر پر عمل کرکے پارلیمانی روایات پر داغ نہیں لگنے دیا جائے گا۔ یوسف رضا گیلانی نے بطورِ سپیکر قومی اسمبلی شیخ رشید کے پروڈکشن آرڈر جاری کر کے پارٹی کی ناراضی مول لے لی تھی، سیکرٹری دفاع کو تبدیل کرکے جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو ناراض کر دیا تھا پھر پارلیمان میں مقتدر ہ کے بڑھتے ہوئے اختیارات پر تنقید بھی کر دی تھی۔ انہیں ان گستاخیوں کی سزا بھی بھگتنا پڑی، ان کا بیٹا اغوا ہو گیا، یہ الگ بات کہ بعد میں آنے والے ایک شریف جنرل نے ان کے بیٹے کی رہائی میں اہم کردار کیا۔ گیلانی بھی میری طرح جمہوری دیوی کے عاشق ہیں، انہیں نامراد کرنا جمہوریت کو ناکام کرنے کے مترادف ہوگا۔
ہمارے بعض تاجروں اور صنعت کاروں کو مارشل لا اور مقتدرہ کی طاقت اس لئے پسند ہے کہ ان کے کام چٹکی بجاتےہی ہو جاتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کی دنیا کی ترقی کا راز پائیدار جمہوریت ہے مقتدرہ یا مارشل لا کی طاقت سے وقتی طور پر سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن یہ پائیدار نہیں ہوتا۔ ایوب خان کی معاشی ترقی کا ماڈل ان کے جاتے ہی اُڑ گیا، جنرل مشرف کی روشن خیالی ان کے جاتے ہی رخصت ہو گئی، ہمارے نظام میں سو خرابیاں سہی انہیں ٹھیک کرنا ہے تو پارلیمان کے ذریعے ٹھیک کیا جائے۔ مداخلت کے باقی طریقے ماضی میں بھی غلط ثابت ہوئے ہیں مستقبل میں بھی غلط ثابت ہوں گے۔ جمہوریت عاشقی کی طرح صبر طلب ہوتی ہے مگر آج کی جدید دنیا میں یہی وہ نظام ہے جو خوشحالی، آزادی اور پائیداری کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
مقتدرہ ہر ملک کا اثاثہ ہوتی ہے جمہوریت تو مقتدرہ کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتی، اگر امن و امان نہ ہو تو انارکی آ جاتی ہے جو جمہوریت کو کھا جاتی ہے، جمہوریت قائم رکھنے کیلئے مقتدرہ ضروری ہے مگر اپنے سب سے قیمتی اثاثے مقتدرہ کوایک بیش قیمت ہیرے کی طرح چھپا کر رکھنا پڑتا ہے وگرنہ دشمن دنیا کی ناپاک نگاہیں اس ہیرے پر ٹک جاتی ہیں اوروہ دنیا بھر کا نشانہ بن جاتا ہے، اسی لئے دنیا بھر میں مقتدرہ پس پردہ رہ کر مشورے دیتی ہے یہاں بھی اس پردے کو تار تار نہ کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ ماضی کے مارشل لا بھی اس دعوے پر آئے تھے کہ وہ نظام کو درست کر دیں گے مگر نظام تو ٹھیک نہ ہوا مقتدرہ کا نام ہی بدنام ہوا۔ اصلاح کا طریقہ پارلیمنٹ کے ذریعے ایسی قانون سازی ہے جس سے نوکر شاہی کا سرخ فیتہ ختم ہو۔ خوشحالی اور سرمایہ کاری کے راستے کے پتھر ہٹائے جائیں، دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کیلئے مقتدرہ اور سیاستدان مل کر لائحہ عمل وضع کریں۔ سادہ سی بات ہے کہ دنیا کی اکثریت نے خوشحالی ترقی اور آزادی کا جو فارمولا طے کر رکھا ہے بس اُسے اپنا لیں۔ نئے تجربات اور جا بجا مداخلت ہمارے راستے کو کھوٹا ہی کرے گی۔