تصور کریں آج کے ڈیجیٹل دور میں گوادر کے ایک ہوٹل کے استقبالیہ پر بیٹھے نوجوان سمیر کے ہاتھوں میں جناب کے کے عزیز کی کتاب ’مرڈرآف ہسٹری‘، اُس کا موبائل فون سائڈ میں رکھا تھا میں نے اُسے کمرے کی چابی دیتے ہوئے خدا حافظ کہا تو اُس نے کتاب میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا ہے سر اس پر کچھ لکھ دیں آپکا آٹو گراف چاہئے میں نے معذرت کی کہ یہ میری کتاب نہیں ہے۔ اُس نے کہا جی بس مجھے آپ کا آٹوگراف چاہئے میں آج کتب میلے سے آپکی کتاب خریدوں گا کیونکہ آپ جارہے ہیں اسلئے اس پر ہی دستخط کر دیں۔ میں نے اُس سے کتاب لی اور لکھا، مجھے اس نوجوان کے ہاتھوں میں کے کے عزیز صاحب کی کتاب دیکھ کر اور اُسکا کتاب سے لگائو دیکھ کر بڑی امید ہوئی ہے کہ یہ اس دور میں کسی انقلاب سے کم نہیں۔ تین روز کے کتابی میلے کے بعد جب یہ تفصیل سامنے آئی کہ اس میلے میں تقریباً 20 لاکھ روپے کی کتابیں خریدی گئی ہیں تو مجھے اسلئے بھی تعجب نہیں ہوا کہ 2023ء میں تربت میں اور پہلے سال کوئٹہ لٹریچر فیسٹیول میں بھی بڑی تعداد میں نوجوانوں جن میں بڑی تعداد میں لڑکیاں بھی شامل تھیں ادب، سیاست اور مختلف موضوعات پر کتابیں خریدتے پائے گئے اسلئے گوادر میں بھی کوئی 10 سال سے یہ میلہ لگتا ہے۔ یہی شوق مجھے دیگر صوبوں کے نوجوانوں خاص طور پر سندھی نوجوانوں میں بھی دیکھنے کو ملا چاہے وہ ایاز میلہ ہو حیدرآباد فیسٹیول یا کراچی میں کے ایل ایف اور آرٹس کونسل ہو۔ مگر بلوچستان جس صورتحال سے گزر رہا ہے وہاں کتابوں کی ریکارڈ سیل نے نئی اُمیدوں کو جنم دیا ہے کہ جہاں احساس محرومی بڑھتا ہے، گھٹن ہوتی ہے، غصہ ہوتا ہے، ترقی کے راستے روکے جاتے ہیں وہیں مزاحمت کی مختلف شکلیں پائی جاتی ہیں جسکی ایک شکل لٹریچر بھی ہوتا ہے۔ اسلئے جب کچھ عرصہ پہلے یہ خبر آئی کہ کچھ نوجوان جن کا تعلق بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی سے تھا کتابی اسٹال سے پکڑے گئے اور کتابیں ضبط کرلی گئیں تو تعجب نہیں ہوا کہ یہ بھی ہماری ریاستی اشرافیہ کرتی رہی ہے۔
جب مجھے گوادر کتابی میلہ کا دعوت نامہ ملا اور پھر نامور تجزیہ کار اور اینکر وسعت اللہ خان،جن سے 45 سالہ رفاقت آج تک قائم ہے، کا فون آیا کہ بس چلنا ہے تو ہم نے تیاری پکڑ لی۔ آفر تو جہاز سے بھی تھی مگر ہم نے بذریعہ روڈ سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں دراصل آج کے بلوچستان کو ’’محسوس‘‘ کرنا چاہتا تھا اسلام آباد سے صبوخ سید کی کمپنی اور پھر ڈرائیور صدام جو بلوچ تھا اور لوگوں کو گوادر لانے اور لے جانے کا کام کرتا ہے آٹھ نو گھنٹے کا پتا ہی نہ چلا میں نے تو پہلی بار ایرانی لسی اور گوادر میں حاجی کا حلوہ کھایا تو مزہ آگیا ۔ پورے راستے آئل اور گیس کے ٹینکر آتے جاتے نظر آئے۔ پہاڑوں پر جگہ جگہ سیکورٹی چیک پوسٹس اور اُس پر ہیلپ لائن کے نمبر دیکھ کر اور چند مقامات پر ناکہ دیکھ کر کشیدگی کا احساس بھی ہوا ۔ تین یا چار ناکوں پر بشمول گوادر پوسٹ کے قریب ناکے پر یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ سیکورٹی پر مامور گارڈ بلوچی زبان میں بات کر رہے تھے۔ وسعت نے بتایا کہ پہلے ایسا نہیں تھا اس لئے یہ تبدیلی مثبت ہے۔ گوادر کا برسوں پُرانا، شاہی بازار دیکھ کر اپنے حیدر آباد کا شاہی بازار یاد آیا مگر یہاں ماسوائے برسوں پرانا ’’حاجی کا حلوہ‘‘ کی دکان اور قریبی چائے کی دکان کے علاوہ زیادہ کچھ نہیں مگر مسجد، گرجا گھر اور ایک مندر قریب قریب ہی تھے۔ ہمارے دوست شرجیل نے بتایا کہ وہ جب چھوٹا تھا تو ایک سینما گھر بھی ہوتا تھا جہاں اُس نے آخری فلم ’’ٹائٹینک‘‘ دیکھی تھی۔ بعد میں ہم کچھ پرانے علاقوں میں بھی گھومے مگر جس چیز نے مجھے متاثر کیا اور غم زدہ بھی وہ ایک طرف انتہائی صاف سمندر اور دوسری طرف کچی آبادی کا منظر۔ فشری مارکیٹ گئے تو دوسری جانب وہ ’’پورٹ‘‘ بھی نظر آیا جو وجہ تنازع بھی ہے جس طرح گوادر کا خوبصورت ایئرپورٹ مگر جب میں نے ایک فشرمین سے پوچھا کہ پورٹ پر جہاز آتے ہیں تو اُس نے اُس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، جی شاید مگر ہم دیکھ نہیں سکتے جانا تو دور کی بات۔ میں نے اُس طرف دیکھا تو ایک لمبی سی باونڈری وال، پہاڑ پر ایک بڑا ہوٹل۔
کراچی سے گوادر تک سفر کے دوران مجھے اچھی سڑک کا تو احساس ہوا مگراچھے پیٹرول پمپ نہ نظر آئے البتہ ایرانی تیل انتہائی سستا لیکن راستے میں نہ اچھے اسکول، کالج، اسپتال نہ اسٹریٹ لائٹس البتہ یہ جان کر خوشی تو ہوئی کہ گوادر، تربت سمیت کوئی درجن کے قریب جامعات ہیں جہاں اچھی خاصی تعداد بچیوں کی ہے مگر بجٹ کتنا ملتا ہے شرمناک۔ بقول تربت یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے ’’یہاں نہ سردار مدد کرتا ہے نہ سرکار‘‘۔ تعلیم اور ترقی سے ویسے بھی ہماری اشرافیہ کو الرجی ہے یقین نہ آئے تو ان سے پوچھ لیں کہ آخری کتاب انہوں نے کون سی پڑھی ہے تعلیمی بجٹ ویسے بھی کم ہوتا ہے اور جو ہوتا ہے وہ ان کے گوداموں اور زمین سے برآمد ہوتا ہے اور وہ غلطی سے چھاپہ پڑ جائے تو پہلے اعدادو شمار غلط بتائے جاتے ہیں پھر آپس میں تقسیم اور فائل بند۔ میرے جامعہ کراچی کے دوست عبداللہ بلوچ نے بتایا کہ تربت میں لڑکے لڑکیوں کو پڑھنے کا بڑا شوق ہے مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مغرب کے بعد باہر نہیں نکل سکتے۔ اس پر مجھے ڈرائیور صدام کا وہ جملہ یاد آگیا جو اُس نے گاڑی کی چیکنگ کے وقت ایک ناکے سے گزرتے وقت پوچھا، صاحب اتنی سخت چیکنگ ہے تو منشیات اور چوری کی گاڑیاں کیسے نکل جاتی ہیں، وسعت نے مسکراتے ہوئے اُس سے کہا۔ ’’آپ گاڑی چلانے پر توجہ دیں‘‘۔
گوادر کتابی میلے میں کئی بھرپور سیشن بھی ہوئے۔ ادب، شاعری، ڈرامہ مگر ایک بھرپور سیشن دو اہم سیاسی شخصیات جن کا تعلق گودار، مزاحمتی سیاست ، سیاستدانوں اور اشرافیہ کی ناکامیوں سے تھا، سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک اور ’’حق دو بلوچستان‘‘ کے روح رواں جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمان کے ساتھ ہوا، جس کی ذمہ داری راقم کو دی گئی۔ یہ دونوں ہی مڈل کلاس خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مجموعی طور پر اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ دونوں ہی اِس بات پر متفق نظر آئے کہ ہماری ریاستی اشرافیہ چاہتی ہی نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کیا جائے۔ پچھلے الیکشن میں اُن سیاستدانوں کو بھی ہروا دیا گیا جو شاید ریاست اور وفاق کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہاں کا مسئلہ وہاں بیٹھ کر، اور جعلی حکمراں لانے سے حل نہیں ہوگا۔ میں گوادر سے کراچی آتے ہوئے سارے راستے سوچتا رہا کہ آخر وہ کونسی سوچ ہے جس نے کبھی عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جس سے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ آخر بلوچستان کا حل کیا ہے۔ یہ معاملہ اتنا بھی مشکل نہیں ہے بس آپ نے جس کا حق ہے وہ اُس کو پہلے دینا ہے چاہے وہ گیس ہو یا دیگر معدنیات۔ جمہوری راستہ ہی راستے نکالتا ہے۔ ہتھیار اُٹھانے والوں سے نہیں کتاب تھامنے والوں سے تو بات کریں۔ آخر سمیر جیسا ’’اولیول‘‘ پڑھنے والا نوجوان ’’مرڈر آف ہسٹری‘‘ پڑھ رہا ہے۔ ان کے ہاتھوں سے کتاب نہ جانے دیں یہی بلوچستان کا مقدمہ ہے۔