• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ اور مودی کی ملاقات کے بعد کے حالات کا اثر ان دونوں ممالک پر تو جو پڑنا تھا پڑا ہی ہوگا مگر اس خطے میں انڈیا کے حوالے سے کسی بھی نوعیت کے اقدام کے اثرات لا محالہ پاکستان اور چین پر ضرور مرتب ہوتے ہیں ۔اسی لئے چین نے اس ملاقات کے بعد دفاعی ساز و سامان کی انڈیا کو فروخت کرنے کی امریکی خواہش یا یوں کہہ لیجئے کہ حکمت عملی پر بہت جچا تلا بیان دیا ہے کہ ایشیا پیسفک امن کا خطہ ہے، عالمی سیاسی کھیل کی جگہ نہیں۔ امریکہ تو خالص طور پر اپنا کاروباری مفاد حاصل کرنے کی غرض سے انڈیا کو دفاعی ساز و سامان فروخت کرنے کی حکمت عملی پر کار بند ہے چنانچہ اسے اس امر کی پروا نہیں کہ کونسا خطہ امن و امان کا حامل ہے اور کونسا نہیں مگر انڈیا کو تو اس کا خیال رکھنا چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈیا میں چاہےکوئی بھی برسر اقتدار ہو وہ علاقائی غلبہ حاصل کرنے کی خواہش کو ہر خواہش پر فوقیت دیتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں دفاعی اعتبار سے جو سب سے اہم بات کی وہ انڈیا کو ایف 35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کے حوالے سے راہ ہموار کرنے کی ہے۔ لوگوں کو تماشہ دکھاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر کار بند مودی حکومت کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیا کہ وہ اسکے ذریعے اپنے عوام کا شکار کھیلے کہ ہم بہت بڑی فوجی طاقت کے طور پر ایف 35 کا استعمال کریں گے۔ حالانکہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کیوں کہ انڈیا کو اگر ایف 35 طیارہ فراہم کرنے کی جانب کوئی حقیقی معنوں میں پیش رفت ہو بھی گئی تو انڈین فضائیہ کو اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں بہت وقت درکار ہو گا۔ سات آٹھ سال تو اس کو انڈین فلیٹ میں شامل ہونے میں ہی لگیں گے ۔ انڈیا کی تینوں مسلح افواج نے امریکی سامان دو ہزار سات سے استعمال کرنا شروع کیا تھا اور ان کی ایئر فورس کو امریکی طیارے استعمال کرنے کا قطعی طور پر کوئی تجربہ نہیں۔ اس سے قبل امریکہ یہ طیارے آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، جاپان، اسرائیل اور جنوبی کوریا کو بیچ چکا ہے۔ خیر یہ طیارے تو امریکہ ترکی کو بھی فروخت کر رہا تھا مگر جب ترکی نے روسی ساختہ ایس فور ہنڈرڈ میزائل دفاعی نظام خرید لیا تو امریکہ نے ترکی کو ایف 35 دینے سے انکار کرتے ہوئے یہ وجہ بیان کی کہ بيک وقت دو ممالک کے سیکورٹی سسٹمز کو استعمال میںلانے سے سیکورٹی لیک ہو سکتی ہے اور انڈیا کو بھی فروخت کرتے ہوئے یہ مسئلہ درپیش ہوگا کیوں کہ انڈیا کے دفاعی نظام میں تو روسی مصنوعات کا بہت عمل دخل ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ یہ کوئی صرف ٹرمپ کے برسر اقتدارآنے کی وجہ سے امریکہ کی پالیسی نہیں ہے بلکہ ایرو انڈیا 2023میں ایف 35 نے بھی شرکت کی تھی اور یہ انڈین سر زمین پر کسی اسٹیلتھ طیارے کی پہلی اڑان تھی جب کہ ایرو انڈیا 2025میں بھی یہ طیارہ شریک ہوگا جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ امریکہ اس طیارے کو فروخت کرنے کے حوالے سے ٹرمپ کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے سے قبل ہی انڈیا کو اس کے ایک ممکنہ گاہک کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ امریکہ نے اس وقت بھی انڈین مارکیٹ میں داخلے کی کوشش کی تھی جب انڈیا فرانس سے رافیل طیارے خرید رہا تھا، اس وقت بھی امریکہ نے انڈیا کو ایف 16 کا بلاک 70فروخت کرنے کی پیشکش کی تھی جبکہ امریکی کمپنی میکڈونلڈ ڈگلس نے ایف 18طیارے فروخت کرنے کی بات کی تھی۔ پاکستان اس خطرے کو اچھی طرح سے بھانپ رہا تھا حالانکہ انڈیا کو اگر یہ طیارہ ميسر آ بھی جائے تو کوئی غیر معمولی تبدیلی خطے میں وقوع پذیر نہیں ہو گی۔ کیونکہ پاکستان کے پاس امریکی طیاروں کے ساتھ ساتھ جے 10سی بھی موجود ہیں مگر اس کے باوجود جنوری 2024میں پاک فضائیہ کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان چین سے جے 31ملٹی رول اسٹیلتھ طیارے حاصل کرنا چاہتا ہے اور پھر میڈیا میں تو یہاں تک خبریں آئی کے پاک فضائیہ کے ہوا باز چین میں اس طیارے کو اڑانے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ ویسے گزشتہ نواز شریف دور میں ہی اس خطرے کو بھانپتے ہوئے پاکستان نے اپنے ذرائع سے ففتھ جنریشن لڑاکا طیارے تیار کرنے کے پراجیکٹ ’’عزم‘‘ کا آغاز کر دیا تھا تا کہ کسی بھی دوسرے ملک پر انحصار کی ضرورت ہی پیش نہ آئے مگر پھر ’’جوڈیشل عزم‘‘ نے نواز شریف کو ہی اقتدار سے بے دخل کر دیا اور معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا بہرحال اگر پاکستان کو جے 31بلکہ اس کے بعد جے 35 بھی چین سے ميسر آ گئے تو جو فرق ایف 35کے حصول سے انڈیا قائم کرنا چاہتا ہے وہ بھی نہیں ہوگا ۔ مودی کے اس دورے میں ایک سفارتی کامیابی اس کو ضرور حاصل ہوئی ہے کہ اس کی وجہ سے امریکی صدر نے پاکستان کے حوالے سے ایک سخت بیان جاری کر دیا۔ اگر اس سارے معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ امریکہ کے اس بیان سے پاکستان کی ساکھ بہر حال ضرور مجروح ہوئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے اس حوالے سے اس نوعیت کی حکمت عملی تیار نہیں کی ہوئی تھی کہ جس کے ذریعے ٹرمپ کی آمد کے بعد والے حالات سے مقابلہ کیا جاتا جو لوگ اس وقت پاکستان کی امریکہ کے حوالے سے حکمت عملی کو تیار کر رہے ہیں ان کی آنکھوں کو کھل جانا چاہئے کیوں کہ انڈیا سے ٹرمپ 500 ارب ڈالر کی تجارت ،کہ جس کا توازن امریکہ کے حق میں ہو ،کی حکمت عملی کی بات کر رہا ہے اور اس کیلئے وہ بیانات سے آگے بڑھ کر اقدامات جیسے پابندیاں وغیرہ کی طرف بھی انڈیا کو خوش کرنے کیلئے جا سکتا ہے اس لئے بہت اعلیٰ سطح کی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے ورنہ نقصان کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔

تازہ ترین