سکھر(بیورو رپورٹ،چوہدری محمد ارشاد)سکھر سمیت اس کے مضافاتی علاقوں میں تھیلیسمیا سمیت خون کی دیگر خطرناک بیماریا ں تیزی سے پھیلنے لگیں،غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے اور غیر تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت خون کی بیماریو ں میں مبتلا ہو رہی ہے ،قریبی عزیزو اقارب میں شادی کیے جانے کے نتیجے میں تھیلیسیمیا ودیگر خون کی بیماریوں کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ۔ سکھر،روہڑی ،پنوعاقل ،صالح پٹ ،کندھرا ،سنگرار ،علی واہن ،اروڑسمیت دیگر آس پاس کے علاقوں میں تھیلیسیما جیسے موذی مرض سمیت خون کی دیگر خطرناک بیماریا ں تیزی سے پھیل رہی ہیں لیکن علا ج کی سہولتیں ناپید ہیں ،تاہم ان بیماریوں کی روک تھام اور مریضوں کو علاج ومعالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے سکھر میں بلڈ اینڈ ڈرگز ڈونیٹنگ سوسائٹی 1990ء سے بغیر کسی تعطل کے خدمات انجام دے رہی ہے، سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر محمد نعیم کے مطابق سکھر ،خیرپور ،گھوٹکی ،کشمور ،کندھکوٹ ،جیکب آباد ،شکارپور ودیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد بچوں کو سکھر بلڈ اینڈ ڈرگز ڈونیٹنگ سوسائٹی میں رجسڑڈ کیا گیا ہے ،یومیہ اوسطاً 40 سے زائد بچوں کو خون مہیا کیا جاتا ہے اور ایک بچے کو مہینے می ں تقریبًا خون کی دو بوتلیں درکار ہوتی ہیں۔ صوبائی زکواۃ کونسل اورحکومت سندھ خون کی بیماریوں میں مبتلا بچوں کے علاج و معالجے کے لئے سالانہ پانچ ملین رقم فراہم کرتی ہے جبکہ بچوں کے علاج ومعالجہ پر 8ملین سے زائد رقم خرچ ہوتی ہے۔اس مہلک بیماری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں تھیلیسیمیا کی بیماری کی روک تھام کیلئے سندھ اسمبلی سے پاس کئے جانے والے بل پر فوری عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے، اورمیں حکومت سندھ سے درخواست کرتا ہوں کہ جو قانون اس حوالے سے پاس کیا گیا ہے اس کو ایک چیلنج تصور کرتے ہوئے اس پرعمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں اس مہلک بیماری سے بچ سکیں دوسری جانب اس موذی بیماری میں مبتلا ہونے والے بچوں کے والدین اپنی زندگی ان کی تعلیمی و تربیت پر صرف کریں ۔انہوں نے حکومت وقت سے بھی اپیل کی کہ وہ ان بچوں کے علاج و معالجے میں آنے والی اشیاء بشمول ادویات کو ٹیکس فری کے ساتھ ساتھ اُس میں اپنی طرف سے سبسڈی بھی شامل کرے۔ایک بچے کو مہینے میں اوسطاً دو صحتمند خون کی بوتلوں کی ضرورت پڑتی ہے اور جس پر تقریبًا چار ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں، اس بیماری میں مبتلا بچے عمومی طور پر انتہائی پسماندہ حالات سے تعلق رکھتے ہیں۔صحت کے ماہرین کے مطابق ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ پانچ ہزار بچے تھیلیسمیا میجر کی بیماری لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ تھلیسیمیا مائنر کی تعداد پانچ سے آٹھ فیصد ہے جبکہ اس بیماری سے بچاؤ کا ممکنہ حل یہ ہے کہ خاندان میں آپس کی شادیوں سے گریز کیا جائے شادی سے قبل ٹیسٹ کر لینا اس کا موثر حل ہے ۔سندھ میں خون کے بڑھتے ہوئے مرض تھیلیسمیا خون کی ایک مورثی بیماری ہے جونسل درنسل بچوں میں منتقل ہوتی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں تھیلیسمیا مائینربچوں کی تعداد90لاکھ سے زائد بتائی جارہی ہے جبکہ سات سو بچوں کو ماہانہ بنیادوں پر بلڈ مہیا کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ خطرناک مرض میں مبتلا بچے وبچیوں کو انجکشن وگولیوں کی بھی ضرورت ہے جو انتہاہی مہنگی ہوتی ہے۔ تھیلیسمیا سمیت دیگر خون کی جان لیوا بیماریوں کا علاج انتہاہی مہنگا ہونے کے باعث اکثر معصوم بچے و مریض جاں بحق ہوجاتے ہیں خون کی بیماری میں مبتلا مریض کے لئے 10سے 12سال بعد ہڈی کے گودے تبدیل کرانا بھی لازمی ہے تاہم علاج کی خطیر رقم نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی اکثریت موت کے منہ میں چلی جاتی ہے ۔