محسن عزیز کی زیرِ صدارت سینٹ کی قائمہ کمیٹی پاور کا اجلاس منعقد ہوا۔
معاونِ خصوصی پاور محمد علی نے اجلاس کے دوران بتایا کہ ہم نے کسی آئی پی پی کو زبردستی منوایا نہ دباؤ ڈالا، یہ تاثر درست نہیں کہ ہم نے دباؤ ڈالا۔
اس دوران شبلی فراز نے سوال اٹھایا کہ آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کیوں نہیں کیا؟ اربوں کھربوں روپے آئی پی پیز کو دے دیے گئے۔
اس پر محمد علی نے بتایا کہ پاکستان میں 50 سے 60 پلانٹس کے فرانزک آڈٹ کی مہارت نہیں، فارنزک آڈٹ میں بے تحاشا پیسا لگتا ہے، ہمیں 2020ء میں فرانزک آڈٹ کے لیے ایک پیسہ نہ ملا تھا، باتیں کرنا آسان ہے، ہم نے 2020ء کے لیے 2 کروڑ 20 لاکھ مانگے تھے جو نہیں ملے، اب بھی ہم سے جو آئی پی پی بات چیت نہیں کرے گا اس کا فرانزک آڈٹ کریں گے، ایک پلانٹ کا فرانزک آڈٹ ہو بھی رہا ہے، یہ پلانٹ بات چیت پر متفق نہیں تھا۔
شبلی فراز نے کہا کہ کیا یہ درست نہیں کہ آئی پی پیز نے اوور انوائسنگ نہیں کی، پاکستان میں ریجن میں مہنگی ترین بجلی ہے۔
محمد علی نے بتایا کہ اوور انوائسنگ کو بغیر ثبوت کے ثابت کر نا مشکل ہے، آئی پی پیز نے فیول اور ایفیشنسی کے دھوکے سے حاصل کی گئی رقم نکلوا لی، ہم نے آئی پی پیز کی 20، 20 سال کی بیلنس شیٹس دیکھیں، فرانزک آڈٹ سے یہ آئی پی پیز لندن کی ثالثی عدالت میں جا سکتے ہیں۔
محمد علی نے مزید کہا کہ ہم ہر چیز بات چیت کے ذریعے کر رہے ہیں، آج کسی کی جیب ایک کروڑ روپے نکال کر دکھائیں، ہم نے 100 ارب روپے کے لیٹ پیمنٹ سرچارج معاف کروا لیے، ہم مجموعی طور پر 300 ارب لیٹ پیمنٹ سرچارج کی مد میں معاف کروا رہے ہیں۔
چیئر مین کمیٹی اویس لغاری نے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک اچھا کام کر رہے ہیں، صرف چاہتے ہیں کہ یہ ریلیف عوام کو بھی منتقل ہو، آئی پی پیز نے ملک کے ساتھ فراڈ اور غداری کی، محمد علی کی سابقہ رپورٹ پر عمل نہ کیا گیا۔