پہلے انسان جملے وضع کرتا ہے پھر جملے انسان وضع کرنے لگتے ہیں اب تو مصنوعی ذہانت آگئی ہے انسان وضع ہو رہا ہے جملوں سے نکلے ہوئے انسان اب حکمرانی کر رہے ہیں، میں شہر ستم گر لاہور میں ہوں۔ ادب ثقافت تمدن جدوجہد مزاحمت شاہی قلعے والا لاہور۔ پاک ٹی ہاؤس کافی ہاؤس والا لاہور داتا کی نگری۔ اب کے لاہور آنے میں صدیاں اور ہزاروں روپے لگ گئے موسم کتنے کاروباری ہو گئے ہیں ایک ایئر لائن اپنی پوری پرواز منسوخ کر دیتی ہے کہ ہم سب آن لائن ہو چکے ہیں آہ و فغاں بھی اب بالمشافہ نہیں ہے۔ محبت اب براہ راست دوسرے تک پہنچتی ہے نہ شکوہ شکایت۔
منسوخ شدہ پرواز کے مسافر اگر ناگزیر سفر والے ہوتے ہیں تو وہ دوسری ایئر لائنوں کی طرف دیکھتے ہیں ان کیلئے کسی پرواز کی منسوخی سے جیسے خزانے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک مسافر کو کراچی سے لاہور آنا چالیس پچاس ہزار روپے میں پڑ جاتا ہے، اسی روز ٹکٹ کی اڑان 68 ہزار تک پہنچ جاتی ہے افسوس ہم اپنی کرنسی کو کس طرح خود رسوا کرتے ہیں مگر میں اور بیگم جب تخلیق کے ادبی ایوارڈ کی تقریب میں ہال میں داخل ہوتے ہیں تو پنجاب کے تخلیقی دھارے تیزی سے بہتے دکھائی دیتے ہیں۔ افسانے پگڈنڈیوں پر لہلہا رہے ہیں، ردیفیں نہر کنارے کھڑی مسکرا رہی ہیں، قوافی ہاتھ ہلا کر ہمارا خیر مقدم کر رہے ہیں غزلیں پنجوں پر چلتی بازو پھیلائے ہمیں اپنی گرفت میں لے رہی ہیں تو ہم ساری کشیدگی سارا تناؤ ساری افرا تفری بھول گئے ہیں لطافتیں ذہنوں سے امڈ امڈ کر گلے لگ رہی ہیں پرنٹ کے خاتمے کی تہمتیں دم توڑ رہی ہیں۔یہاں سب پرنٹ کے دیو دار صنوبر شاہ بلوط برگد پیپل گل مہر جمع ہیں مہکتے گلاب بھی ہیں نیم وا غنچے بھی ہیں کھلی کلیاں بھی۔ وہ بھی ہیں جنہیں پڑھتے عشرے گزر گئے جن کے نشتر گدگدی کرتے ہیں ،جن کے شعر معنی کے جہان کھول دیتے ہیں ہر لکھنے والا ایک کہانی ہے ایک ناول ہے، ہم ان دماغوں کے درمیان ہیں جنہوں نے اپنے ریگزاروں میں سچائیوں کے خزانے ڈھونڈ نکالے ہیں جنہوں نے اپنے دریاؤں میں سوہنی مہینوالوں کو امر کر دیا ہے ایک ادبی رسالے میں کتنی قوت کتنی کشش ہے کتنی توانائی ہے کہ بڑے بڑے ناول نگار افسانہ نویس نظم گو غزل تراش اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پہنچ گئے ہیں۔
تیرہواں تخلیق ادبی ایوارڈ سرگودھا کے 178 کتابوں کے مصنف پروفیسر ہارون رشید تبسم کے نام کیا گیا ہے۔ اظہر جاوید ہمارے قبیلے سے تعلق رکھنے والے دور کہیں آسمانوں پر ستاروں کے جھرمٹ میں گردش کرتے ہوئے دیکھ رہے ہونگے کہ ان کے بیٹے سونان اظہر نے کس طرح ان کے تخلیق کو مرجھانے نہیں دیا بلکہ پوری توانائی سے کھلایا ہوا ہے زمانہ آج کل بہت سفاک ہے ٹیکنالوجی کاغذ کو نگلنے پر مصر ہے کاغذ اور حرف میں فاصلے بڑھ رہے ہیں مگر کچھ لوگ کچھ نوجوان ایسے ہیں جو کاغذ اور قاری کے رشتے کو مستحکم کر رہے ہیں حرف ہی اصل طاقت ہے پتھر کے زمانے سے لیکر آج ڈرون کے دور تک، خط کے موسموں سے لیکر آج واٹس ایپ کی فضاؤں تک اصل رابطہ حرف سے ہی ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر سعادت سعید ہمیں افتخار جالب، عباس اطہر، زاہد ڈار کی یاد دلا رہے ہیں۔ نظیر قیصر کی قربت انجم رومانی، انتظار حسین، شہرت بخاری، ناصر کاظمی کی صحبتوں میں لے جا رہی ہے ڈاکٹر نجیب جمال میں احمد مشتاق، انیس ناگی، عبادت بریلوی جھلک رہے ہیں۔ ڈاکٹر ریاض مجید پوری زندگی نعتیہ ادب کیلئے وقف کر چکے ہیں۔ 60کا عشرہ یاد آ رہا ہے جب انٹر کالجیٹ مشاعروں میں انکے شعر کی پختگی قابل رشک ہوتی تھی۔ عدیل برکی نے اپنا ایک تشخص بنا لیا ہے۔ شہزاد نیر کی نظامت اس منفرد متنوع ادبی محفل کو اور زیادہ شان و شوکت عطا کر رہی ہے۔ حسن عسکری کاظمی، ناصر علی، سید شہزاد، شہزاد بیگ، حفیظ خان، شجاعت علی راہی، حفیظ طاہر، عبدالجبار مرزا، تنویر شہزاد، عبدالستار عاصم، ڈاکٹر رفیق خان، عذرا اصغر، نگہت جمیل، نصرت صدیقی، تسنیم کوثر، پنجاب خیبر پختون خوا اسلام آباد کی تخلیقی قوتیں زرخیز ذہن ایک چھت تلے جمع ہیں۔ لکھنے والے بوڑھے ہو رہے ہیں مگر تحریریں اب بھی جوان ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہاں یونیورسٹیوں کالجوں کے شعبہ اردو کی نئی نسل بھی مدعو ہوتی ایک نسل سے دوسری نسل کو ادبی میراث باقاعدہ منتقل ہوتی بیسویں صدی کی خوشبو 21ویں صدی میں داخل ہوتی، ہمارا لاہور آنا سود مند ہو گیا ہے میرے اس خیال کو تقویت ملی ہے حرف اب بھی عظیم ہے پرنٹ کیلئے اگر سوز دروں اور قوت جنوں مل جائے تو یہ شعلہ قندیل بن جاتا ہے تخلیق نے اپنا فرض بخوبی ادا کر دیا ہے اب ریاست حکومت اور معاشرہ بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ کوئی معاشرہ تحقیق اور تخلیق کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا یہ سب لکھنے والے جو آج یہاں موجود ہیں تہذیب ثقافت علم کی رواں ندیاں ہیں جو ایک خطے کو سیراب اور سرسبز رکھتی ہیں، لاہور میں ہوں اور اپنی مادر علمی کی مہک سے ذہن کو معطر نہ کروں یہ کیسے ممکن ہے۔ پروفیسر جاوید اقبال ندیم جو فلسفے کا عملی اطلاق کر رہے ہیں کتابیں تخلیق کر رہے ہیں وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں پہنچ چکے ہیں علامہ عبدالستار عاصم ضمیر بھٹی ہمیں اور ہماری بیگم کو لے کر اس ٹاور اور محرابوں کے درمیان لے آئے ہیں جن کی یاد کے بغیر کوئی صبح یا شام نہیں گزرتی گورنمنٹ کالج کی محرابیں اسی طرح مہربان ہیں سیڑھیاں اسی طرح بلندیوں کی طرف لے جا رہی ہیں میری طالب علمی اور آج کی نسل کے درمیان 61 سال کا فاصلہ ہے شعبہ فلسفہ کی صدر ثوبیہ طاہر نے آج کے اساتذہ کو یکجا کر لیا ہے میں تو لاہور میں ہر جملہ بہت محتاط ہو کر بول رہا ہوں کیونکہ ہر طرف تصویریں اور بڑا بھائی ہمیں دیکھ رہا ہے۔ 1984کا ناول ہمیشہ میرے ذہن پر سوار رہتا ہے لیکن ثوبیہ طاہر سقراط کے مکالمے ادا کرنے کے خطرناک موڈ میں ہیں انکے ساتھ بیٹھے یہ نوجوان اساتذہ ہمارے بیٹے بیٹیاں میرے سارے خدشات دور کر رہے ہیں طلبہ و طالبات سے تو ملاقات نہیں ہو رہی ہے مگر یقین کی کاشت ہو رہی ہے کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ فلسفے کی سیٹیں بے شک کالجوں میں کم کر دی جائیں مگر فلسفہ معاشرے کی ضرورت تھا ضرورت ہے ضرورت رہے گا وقتی طور پر افراتفری طوائف الملوکی کا سماں ہے لیکن یہ قافلے جو منطق اخلاقیات ما بعد الطبیعات نفسیات جبلت حکمت اور دلیل کے راستوں پر گامزن ہیں زمانہ ان سے رہنمائی حاصل کرے گا۔ ارسطو، افلاطون، برگساں، ڈیکارٹ، بر ٹرینڈ رسل کی فراست کتابوں کی الماریوں میں مقفل نہیں رہے گی۔ سامنے فلسفے کے سابق صدور کی تصویریں لگی ہوئی ہیں میرے زمانے کے سربراہ ڈاکٹر حمید الدین ہمیں مسکراتے دیکھ رہے ہیں شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر صائمہ ارم سے ملاقات کی کوشش ہمیں نون میم راشد، فیض احمد فیض، کنہیا لال کپور، مظفر علی سید، اشفاق احمد ،بانو قدسیہ سے بھی دعا سلام کا موقع دے رہی ہے قیوم نظر اپنے مخصوص قہقہے سے حلقہ ارباب ذوق کی یاد دلا رہے ہیں۔ لاہور آنا مہنگا تو پڑا ہے مگر میں ادبی اور نظریاتی طور پر مالا مال ہو کر جا رہا ہوں 61سال کی محرومیاں ہوا ہو رہی ہیں جھنگ لاہور کراچی میرے آشیانے آباد رہیں شاد رہیں۔