• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تضادستان بھی عجیب ہے۔ یہاں دنیا کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے ،سب سے زیادہ عقلمند،سیاست کو اپنی انگلیوں پر نچانے والے، میڈیا کو اپنے گرد گھمانے والے، بین الاقوامی امور کی گتھیاں چٹکیوں میں سلجھانے والے،میڈیا کو نت نئے رنگا رنگ بیانیے دینے والے، اور تو اور مقتدرہ، میڈیا، مردانِ سیاست، دائیں اور بائیں بازو میں یکساں مقبول اور معزز فرد بھی موجود ہیں مگر تف ہے کہ ملک کے لوگ نہ انہیں حکمران بناتے ہیں، نہ ان سے پوچھ کر کھیلتے، بولتے یا عمل کرتے ہیں حالانکہ تضادستان کو کامیاب، خوشحال اور معزز بنانے کیلئے ملک شاہ جی کے حوالے کردیںاور پھر دیکھیں کہ وہ دنیا بھر کے کڑاکے کیسےنکالتےہیں۔

دنیائے سیاست کے بادشاہ سرونسٹن چرچل (1874ءتا 1965ء) اور دنیائے عقل وخرد کے شہنشاہ برٹرینڈرسل (1872ءتا1970ء)کی طرح شاہ جی نے بھی اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی،سپرپاور کی ٹاپ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔وہ ضمیر کی آواز پر چلتے ہیں، دل میں عوام کی خدمت کا سودا سمایا ہوا ہے، اس لئے بجائے بڑی تنخواہ کی نوکری کے انہوں نے ایک سرکاری یونیورسٹی میں ملازمت کو ترجیح دی۔ ہر بڑا آدمی آزمائشوں سے گزرتا ہے شاہ جی بھی تب ہی بڑے آدمی بن سکتے تھے جب ان آزمائشوں سے گزرتے ۔ وہ لیکچرار بنے تو فضا مسموم تھی جنرل ضیاءالحق کی ضیا پاشیاں بھٹو کے حامیوں اور بالخصوص کمیونسٹوں پر ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہی تھیں، بس شاہ جی بھی دیگر بڑے لوگوں کے ساتھ برخاست ہوگئے مگر یہ دھچکا تو ان کیلئے’’ کُبے کیلئے لات‘‘ ثابت ہوا۔ بھلا عبقری کو بھی کوئی روک سکتا ہے، کوئی جینئس بھلا ان حربوں سے حوصلہ ہارتا ہے ،کیا کوئی دانشور ٹھوکر لگنے سے دوڑ روک سکتا ہے؟ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے کے مصداق شاہ جی کا انتظار تو ایک نئی دنیا کر رہی تھی، انہیں ایک شیعہ مذہبی رہنما کے اخبار کا ایڈیٹر بنا دیا گیا وہ کم عمر ترین ایڈیٹر تھے، انہوں نے ڈٹ کر ایڈیٹری کی اور یہ نظریہ دیا کہ پاکستان اور ایران میں قریبی تعاون ہونا چاہئے، یاد رہے کہ اس وقت ایران میں امام خمینی کا شیعہ اسلامی انقلاب آچکا تھا مگر ماضی میں بائیں بازو کا لیبل رکھنے کے باوجود شاہ جی نے جو درست سمجھا وہ کیا ،ضمیر کی آواز پر انہوں نے دائیں بازو کے انقلاب کی پرزور حمایت کی۔ اسی زمانے میں انہوں نے صحافت اور ڈپلومیسی میں بھی نام کمالیا، وہ افغانستان کے کمیونسٹ صدر ببرک کارمل سے ملنے گئے اور ان کا انٹرویو کیا پھر انہیں یہ اعزاز بھی ملا کہ ہندوستان کے نامور صحافی کلدیپ نیئر کو وہ ڈاکٹر قدیر خان سے ملوانے لے گئے اور یوں پہلی بار دنیا کو پیغام ملا کہ پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت موجود ہے۔ یہ صحافت تھی یا نہیں حب الوطنی تھی یا ضمیر کی آواز جو بھی تھا ،شاہ جی کو اس کا کریڈٹ بہرحال حاصل ہے ۔کئی ایک کیلئے صحافت اور سیاست میں کوئی فرق بھی تو نہیں، وہ تو ان دونوں شعبوں کے درمیان گھومنے والے دروازے سے آتے اور جاتے رہتے ہیں کئی ایک تو صحافت کو سیڑھی بنا کر سیاست میں جا دھمکتے ہیں۔

خیر بات تو تضادستان کے سب سے ایماندار، سب سے عقلمند، سب سے بڑے صحافی، سب سے بڑے فلاسفر، سب سے بڑے سیاست دان، سب سے بڑے منفرد اور سب سے زیادہ صائب رائے رکھنے والے شاہ جی کی ہورہی تھی اس میں خواہ مخواہ صحافت اور سیاست کا ذکر آگیا۔

ابھی تو ان کے نوعمری کے کارناموں کا ذکر تھا۔ شاہ جی نے اصل کڑاکے تو جنرل اسلم بیگ کے سریر آئے سلطنت ہونے کے بعد نکالے۔ جنرل اسلم بیگ شاہ جی کی دانش سے بہت متاثر تھے انہوں نے بھی پاک ایران دوستی کا بیانیہ اپنایا اور شاہ جی کی شاگردی سے بلند تر ہوکر عراقی صدر صدام کے ہاتھوں امریکہ کی شکست کا مژدہ سنادیا۔ شاہ جی کی دانش کی خبر سیاسی حلقوں تک پہنچی تو نون اور شاہ جی کے درمیان محبت کی پینگیں پڑ گئیں۔ نون کے دوسرے دور حکومت میں شاہ جی کو میڈیا کا محاذ مل گیا، وزارت کا تاج بھی سر پر سج گیا ،دوتین تالیاں بجانے والے حواری بھی مل گئے، اب شاہ جی ،پیپلز پارٹی، صحافیوں اور بیرونی دنیا کے مصنوعی اور جعلی قہقہوں کے ساتھ کڑاکے نکالتے اور ان کے حواری ان قہقہوں میں دنیا بھر کا مذاق اڑاتے کیونکہ وہ اس وقت آسمان پر تھے اور باقی سب تہہ زمین۔انکے طنزیہ قہقہے اور جملوں کے کڑاکے واقعی جائز تھے ۔اسی زمانے میں صحافت کی تاریخ میں پہلی بار جنگ گروپ کے 15صحافیوں کو نکالنے اور انکی جگہ پر حکومت کے پسندیدہ صحافیوں کو رکھنے کا مطالبہ کیا گیا۔احتساب بیورو کے سیف الرحمن کی یہ گفتگو ٹیپ شدہ اور ریکارڈ ڈ ہے، اس میں محمود شام، ڈاکٹر ملیحہ لودھی جیسے بڑے ناموں کے ساتھ اِس گمنام کو بھی شامل کیا گیا تھا، جب سیف الرحمن یہ نام لے رہے تھے تو ہمارے شاہ جی کے قہقہے اور کڑاکے نکالنے کےجملے پس منظر میں سنے جا رہے تھے کہیں کہیں شاہ جی درمیان میں لقمہ دے کر اس منصوبے میں شریک کار ہونے کی تصدیق بھی کررہے تھے۔ شاہ جی ہمیشہ ضمیر کی آواز پر عمل کرتے ہیں وہ جو بھی کرتے ہیں صحیح کرتے ہیں۔ آزادی صحافت پر پابندی ہو تب بھی شاہ جی درست فیصلے کرتے ہیں اور اگر آزادی دلوانی ہو تب بھی ان کا مشاہدہ اور کردار درست ہوتا ہے، شاہ جی ٹھیک باقی سب غلط، نون کی حکومت ختم ہوئی تو جنرل مشرف کے مارشل لاء نے انہیں نظربند کر دیا ابتدائی طور پر ان کے ڈٹ جانے اور کڑاکے نکال دینے کی خبریں آئیں مگر پھر جنرل مشرف کو ان کی دانشمندی کا ادراک ہوا تو انہوں نے نون لیگ کی باغی جماعت ق لیگ کو شاہ جی کو اپنا سیکرٹری جنرل بنانے کا مشورہ دیا ق لیگ تو پہلے ہی شاہ جی کی لیاقت، عظمت اور باضمیری کی قائل تھی اُس نے فوراً نہ صرف یہ جرنیلی مشورہ مانا بلکہ شاہ جی کے قابل ترین بھائی کو صوبے میں وزیر کا درجہ دیکر اس خاندان کی قابلیت کا اعتراف کیا۔جنرل مشرف کمزور پڑے تو ق لیگ کے بھی کڑاکے نکل گئے، اب شاہ جی دوبارہ سے نون لیگ کے قریب ہو گئے اور پھر علم نہیں کس کے اشارے پر نون نے انہیں اپنا سنیٹر بنالیا مگر مصلحت کی یہ شادی ڈھول تاشے بجائے بغیر ہی اپنے اختتام کو پہنچ گئی ۔آج کل شاہ جی کو تحریک انصاف پر پیار آیا ہوا ہے وہ عمران کی محبت میں دوسروں کے کڑاکے نکال رہے ہیں ،شاہ جی باضمیر ہیں ملک کے سب سے بڑے آدمی ہیں وہ جو بھی کرتے ہیں ٹھیک ہی کرتے ہیں انہیں بھلا کون پوچھ سکتا ہے؟شاہ جی کڑاکے نکالتے رہیں تضادستان آپ جیسوں کیلئے ہی تو ہے ۔ایک شاہ جی پر ہی کیا موقوف سارے تضادستانی دانشور شاہ جی ہی تو ہیں ۔

تازہ ترین