• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بنگلہ دیش کے باہمی تجارتی تعلقات میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جس تیزی سے بہتری آئی ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کی تبدیلی کے بعد سے دونوں ممالک نے دو طرفہ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے میں خصوصی دلچسپی دکھائی ہے۔ اس کا آغاز چند ماہ قبل دونوں ممالک کے تاجروں کی کوششوں سے سمندری راستے سے تجارت کی بحالی سے ہوا تھا جس کے بعد اب حکومتی سطح پر بھی تجارت میں بہتری آئی ہے اور بنگلہ دیش نے 50ہزار میٹرک ٹن چاول پاکستان سے درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان ٹریڈنگ کارپوریشن کا ایک بحری جہاز 26 ہزار میٹرک ٹن چاول کی پہلی کھیپ لے کربنگلہ دیش روانہ ہوچکا ہے جبکہ دوسرا جہاز 24 ہزار میٹرک ٹن چاول لے کر آئندہ ماہ بنگلہ دیش جائے گا۔ اس طرح گزشتہ چند ماہ کے دوران دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم تقریباً ایک ارب ڈالر سے زائد ہو گیا ہے۔ قبل ازیں 2019ء میں پاکستان کی بنگلہ دیش کو برآمدات کا حجم 900ملین ڈالر تھا جو کم ہوتے ہوتے 2022میں 500ملین ڈالر سے بھی کم رہ گیا تھا۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی طرف سے پاکستان کو ملبوسات، ٹیکسٹائل، جیوٹ کی مصنوعات اور ادویات جبکہ پاکستان کی طرف سے بنگلہ دیش کو کپاس، ٹیکسٹائل، مشینری اور کیمیکل مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں تجارتی وفود کے درمیان مذاکرات، ویزا پالیسیوں میں نرمی اور نان ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے کی تجاویز دونوں ممالک کی باہمی دلچسپی کو ظاہر کرتی ہیں۔ دوطرفہ تجارت میں اضافے کے حوالے سے وزارت تجارت اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے حکام مشترکہ طور پر ایک اعلیٰ سطحی دورے کی تیاریاں بھی کر رہے ہیں جسکی قیادت ممکنہ طور پر وزیر اعظم شہباز شریف خود کریں گے۔ اس دورے کے دوران مختلف کاروباری شعبوں کی نمائندہ شخصیات کے وفود کی سطح پر دو طرفہ تجارت میں اضافے کے امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین براہ راست پروازوں کا سلسلہ بھی شروع ہونے جا رہا ہے جس سے دو طرفہ رابطوں میں غیر معمولی بہتری آئیگی۔ پاکستان کو بنگلہ دیش کی برآمدات میں اضافے کی مہارت کو دیکھتے ہوئے ان مصنوعات کی مشترکہ تیاری یا تکنیکی اشتراک پر بات کرنے کی ضرورت ہے جو نئی ہیں اور اس وقت بنگلہ دیش میں تیار نہیں ہو رہی ہیں لیکن پاکستان انکی تیاری میں مہارت رکھتا ہے۔ اس طرح دونوں ممالک کے مابین نئے تجارتی روابط استوار ہوں گے اور مستقبل میں انکو مزید وسعت دی جا سکے گی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی نسبت بنگلہ دیش میں کاروبار زندگی کے ہر حصے میں خواتین کی شمولیت نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل، فیشن اور ای کامرس کے شعبوں میں خواتین چھائی ہوئی ہیں۔ وہ ان کاروباری شعبوں میں صرف ہنرمند افرادی قوت فراہم کرنے تک محدود نہیں ہیں بلکہ وہ کئی کامیاب کاروباری اداروں کی قیادت کر رہی ہیں اور اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے پاس بنگلہ دیش کی مثال سے سیکھنے کے بھرپور مواقع موجود ہیں۔ اس طرح ہم ناصرف اپنے ہاں خواتین کی پیداواری عمل میں شمولیت کو بڑھا سکتے ہیں بلکہ دونوں ممالک کی خواتین باہمی کاروباری تعلقات کو مضبوط بنانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پاکستانی خواتین کاروباری شخصیات بنگلہ دیش کی ترقی پذیر ٹیکسٹائل انڈسٹری سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں جبکہ بنگلہ دیشی کاروباری خواتین پاکستان کی بڑھتی ہوئی ریٹیل مارکیٹ میں نئے صارفین تلاش کر سکتی ہیں۔ تجارتی نمائشوں، آن لائن مارکیٹنگ اور کاروباری تنظیموں کے اجلاسوں کے ذریعے دونوں ممالک کی خواتین کاروباری شخصیات کی مہارت میں اضافہ، علم کا تبادلہ اور مصنوعات کا تنوع ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈیجیٹل تجارت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ گھروں میں بیٹھ کر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے والی خواتین کی بھی حوصلہ افزائی ہو سکے اور انہیں اپنی مصنوعات فروخت کرنے کیلئےزیادہ بڑا پلیٹ فارم میسر آ سکے۔ خواتین کی زیر قیادت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار ان پلیٹ فارمز کے ذریعے روایتی سپلائی چین پر انحصار کیے بغیر اپنی مصنوعات برآمد کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی اور نئے آئیڈیاز پر مبنی کاروباری اداروں کو فروغ دینے کیلئے انکیوبیشن پروگرامز معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔اسی طرح ٹیکسٹائل کا شعبہ بھی دونوں ممالک کی باہمی تجارت کے فروغ کیلئے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کی معیشت یا برآمدات میں بڑا حصہ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کے شعبوں کی پیداوار اور برآمدات کا ہے۔ بنگلہ دیش میں ملبوسات کی صنعت میں تقریباً 80 فیصد افرادی قوت خواتین پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں بھی خواتین کی ٹیکسٹائل اور دستکاری کی صنعتوں میں شمولیت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے بڑھتی ہوئی تجارت کے ذریعے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو گا جس سے خواتین کیلئےٹیکسٹائل فیکٹریوں، زرعی صنعتوں اور ڈیجیٹل کاروباروں میں ملازمت کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔

موجودہ حالات میں اگرچہ دونوں ممالک کیلئے تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی وسیع گنجائش موجود ہے لیکن اس کی راہ میں کئی چیلنجز بھی حائل ہیں۔ ان میں زیادہ محصولات، پیچیدہ کسٹمز کے طریقہ کار اور نان ٹیرف رکاوٹیں شامل ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست بینکاری چینلز، مالیاتی معاہدوں اور ڈیجیٹل ادائیگی کے حل کی عدم موجودگی بھی لین دین کو مشکل بناتی ہے جس سے تجارت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ایسے میں محدود براہ راست شپنگ راستے اور پیچیدہ نقل و حمل کے قواعد و ضوابط، مال برداری کے اخراجات اور وقت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس لیے طویل المدت تجارتی تعلقات استوار کرنے کیلئے بہتر ٹرانسپورٹ، انفراسٹرکچر اور تجارتی سہولت کاری کے اقدامات ضروری ہیں۔

تازہ ترین