(گزشتہ سے پیوستہ)
حفیظ صاحب کی زندگی بھر یہ خواہش رہی کہ انہیں صرف شاعر نہیں اسی طرح قومی شاعر سمجھا جائے جیسے اقبال کو سمجھا جاتا ہے۔ انکی خواہش تھی کہ وفات پر انہیں علامہ اقبال کے پہلو میں دفن کیا جائے، حکومت نے انکی خواہش کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جو اس بات کا جائزہ لے سکے کہ انکی یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے کہ نہیں چنانچہ کوئی فیصلہ ہونے تک انہیں ان کی بستی ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ میرے سمیت بہت سے لوگ جب اپنے عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کیلئے آتے تو حفیظ صاحب کی لحد پر بھی فاتحہ پڑھتے۔ بالآخر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ انہیں مینار پاکستان کے احاطے میں دفن کیا جائے۔ ایل ڈی اے کی جو ٹیم انہیں ان کی لحد سے نکالنے کیلئے آئی ان میں میرا ایک دوست شمیم اختر بھی تھا۔ اس کا بیان ہے کہ قبر سے کچھ بھی نہ نکلا، تاہم جو کچھ ہاتھ آیا انہوں نے وہ ملبہ مینار پاکستان کے احاطے میں دفن کر دیا۔ مجھے علم ہے کہ قارئین کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ نیک اور متقی لوگوں کا جسم قبر میں ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ حالانکہ یہ نیک اور بد کی پہچان نہیں ہے، کسی کی بھی میت آپ برفانی یا پہاڑی علاقے میں دفن کریں گے وہ صحیح سلامت رہے گی لیکن نمی والی جگہ اس حوالے سے کوئی تمیز روا نہیں رکھتی۔ آپ تجربے کے طور پر کوئی بھی قبر کھود کر دیکھ لیں اس میں سے سوائے من گھڑت کہانیوں کے کچھ بھی نہیں نکلے گا۔
اب ایک اور ستم ظریفی ملاحظہ کریں۔ میں آج قرۃ العین حیدر کے بارے میں لکھنے کا ارادہ رکھتا تھا اور حفیظ صاحب کی طرف نکل گیا۔ مجھے لاہور کے بلکہ ملک بھر کےسب سے بڑے اشاعتی ادارے سنگ میل کے مالک نیاز احمد صاحب کا فون آیا کہ آپ آج شام میرے دفتر میں آئیں۔ انڈیا سے قرۃ العین حید ر آئی ہوئی ہیں۔ میرے لئے یہ خبر ایسے ہی تھی جیسے جان و دل سے عزیز اپنے محبوب کا دیدار میسر ہونے والا ہو۔ میں سمجھتا تھا اور سمجھتا ہوں کہ اردو کی سب سے بڑی فکشن رائٹر قرۃ العین حیدر ہیں۔ لوئر مال پر واقع نیاز صاحب کا دفتر کاروباری کم اور ادیبوں کی بیٹھک کے طور پرزیادہ استعمال ہوتا تھا اور اسکی وجہ نیاز صاحب کی پرخلوص شخصیت اور ادیبوں کیلئے انکے دل میں احترام اور محبت کا جذبہ تھا۔ چنانچہ یہ پیغام سنتے ہی میں سب کام کاج چھوڑ کر سنگ میل پہنچ گیا۔ اس وقت وہ خاصی معمر ہو چکی تھیں مگر میں ان کے چہرے پر ان کے باطن کی خوبصورتیوں میں کھویا ہوا تھا۔ اس وقت وہ کچھ غصے میں تھیں اور ان پبلشروں کے خلاف بات کر رہی تھیں جو پاکستان میں انکی کتابیں انکی اجازت کے بغیر شائع کئے جا رہے تھے۔ یہ سن کر مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے کہا آپ مجھے چند لائنیں ڈکٹیٹ کروا دیں۔ میں نوائے وقت میں شائع کرا دوں گا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے چند لائنیں لکھیں اور ان میں اتنی قطع و برید کہ بعض الفاظ پڑھے نہیں جاتے۔ میں اس نشے میں سرشار کہ آج میری ملاقات بالآخر اس رائٹر سے ہو گئی جس کی تحریروں کا میں عاشق ہوں مگر ان سے اتنی اچانک ملاقات متوقع نہیں تھی کہ وہ پاکستان سے واپس انڈیا چلی گئی تھیں۔ میں دفتر نوائے وقت پہنچا تاکہ مجید نظامی صاحب سے اس خبر کی منظوری لے لوں اور یہ اس لئے کہ نوائے وقت ان کے انڈیا واپس چلے جانے پر خاصی تنقید کرتا رہا تھا۔ پتہ چلا کہ مجید صاحب دفتر میں نہیں ہیں۔ شاید گھر پر ہوں، میں دوڑا دوڑا ان کے گھر پہنچا اور کہا یہ خبر ہے اور اس پر دستخط کر دیں تاکہ یہ شائع ہو جائے۔ مجھے یہ بتانا یاد نہیں رہا کہ میں نے یہ خبر دوبارہ لکھی تھی اور اس پر بہت محنت کی تھی کہ اسے پڑھنا کوئی آسان کام نہ تھا اور ہاں پوری کوشش کی تھی کہ میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ یا کمی نہ کروں۔ بہرحال نظامی صاحب نے خبر پڑھی اور مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہنے لگے، آپ کہتے ہیں تو دستخط کر دیتا ہوں ورنہ محترمہ نے واپس انڈیا جا کر اچھا نہیں کیا تھا۔
میں یہ خبر جیب میں ڈالے بچوں جیسی خوشی کے ساتھ دفتر نوائے وقت گیا۔ اس وقت وحید قیصر صاحب نیوز ایڈیٹر تھے اور وہ کاپیاں پیسٹ کروا رہے تھے۔ میں نے یہ خبر نیاز نامی کاتب سے کتابت کروائی اور وحید صاحب سے گزارش کی کہ یہ خبر اسی ایڈیشن میں جانی چاہئے۔ اس کے بعد میں تلاش بسیار کے نتیجے میں قرۃ العین حیدر جنہیں عینی آپا کہا جاتا تھا، کی ایک تصویر تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بھی موجود تھے۔ یہ امانت میں نے وحید صاحب کے سپرد کی اور اپنے روٹین کے کام کاج میں مشغول ہو گیا۔ صبح اٹھا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ خبر دو کالمی سرخی کے ساتھ چھپی ہوئی تھی۔ اس کے بعد میں گھر سے نکل گیا اور شام کو واپس آیا تو وائف نے بتایا کہ آپ کی عینی آپا کا فون آیا تھا، میں نے کہا شکریہ ادا کر رہی ہوں گی، بولی نہیں وہ تو بہت غصے میں تھیں، میں ابھی حیرانی کے عالم میں تھا کہ فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف عینی آپا تھیں۔ میں ابھی بات کرنے ہی کو تھا کہ انہوں نے مجھ پر چڑھائی کر دی ’’تم پاکستانی ہو ہی ایسے، تمہیں کس نے میری تصویر شائع کرنے کی اجازت دی تھی اور خبر میں ایک لفظ یوں تھا اور آپ کے ہاں یوں تھا‘‘ میں نے عرض کی آپا اگر مجھ سے کچھ غلطی ہوگئی ہے تو میں آپ سے معذرت خواہ ہوں مگر آپ یقین جانیں اس میں بدنیتی کا کوئی دخل نہیں تھا، ’’مگر انہوں نے میری اس معذرت کو ہی رد کر دیا اور میرے اور دوسرے پاکستانیوں کے بارے میں بہت نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ تب میرا پارہ چڑھ گیا اور میں نے برصغیر کی اس سب سے بڑی فکشن رائٹر کو مخاطب کر کے کہا ’’آپ لکھتی کیا ہیں جس پر اتنا ناز کر رہی ہیں، ہمارے پاس ایک سے ایک بڑھ کر فکشن لکھنے والے ہیں، آپ کچھ عرصہ ان کے قدموں میں بیٹھیں تو شاید لکھنا سیکھ جائیں‘‘ میں ہی جانتا ہوں کہ اپنی محبوب رائٹر کیلئے میں نے یہ بیہودہ الفاظ کیسے کہے، مگر میں حیران رہ گیا کہ اس کے ساتھ ہی ان کا لہجہ بدل گیا اور بہت شائستگی سے کہنے لگیں میں معافی چاہتی ہوں کہ کسی اور کا غصہ میں نے آپ پر نکال دیا، میں بہت ممنون ہوں کہ آپ نے میرے لئے یہ خبر شائع کی۔ اگلے روز نیاز صاحب کا فون آیا، کہنے لگے یہ صبح سے یہاںکے جس ادیب کا نمبر بھی ملاتی تھیں اس پر چڑھائی کر دیتی تھیں۔ آپ کو بھی انہوں نے فون کیا، پہلے ان کا لہجہ اور تھا وہی ڈانٹ ڈپٹ والا، مگر کچھ دیر بعد وہ بہت محبت اور احترام سے آپ کے ساتھ گفتگو کرتی رہیں، ہمیں بھی بتائیں کہ ان میں یہ تبدیلی کیوں اور کیسے آئی؟‘‘ میں نے کہا نیاز بھائی عینی آپا کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے، جہاں قدم قدم پر آداب بجا لانے والے لوگ انکے آگے پیچھے پھرتے ہیں، اس کے علاوہ ایک بہت بڑی رائٹر کے طور پر ہر جگہ انکی پذیرائی ہوتی ہے، میں نے سوچا یہ ہر وقت عزت کے دائرے میں رہتی ہیں اور بے عزتی کیلئے ترسی ہوئی ہیں اور یوں اپنی پرانی آرزو پوری ہونے پر خوش باش ہو گئیں، اور کوئی بات نہیں!۔ (جاری ہے)