• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی میڈیا کی ایک خبر کے مطابق بحرین کے شہر مانامہ میں انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی کانفرنس میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر اور سابقہ سیکرٹری نے امریکہ یورپ اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے معاشی اثاثوں پر دہشت گردوں کی طرف سے حملوں کی نئی لہر کیلئے تیار رہیں۔ ادھر بی بی سی کے وطن برطانیہ میں انٹرپول کے سربراہ نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت، برطانیہ میں داخل ہونے والے افراد کی جانچ پڑتال مشتبہ دہشت گردوں سے متعلق عالمی معلومات کی بنیاد پر نہیں کرتی جسکی وجہ سے برطانوی شہریوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ انٹرپول کی فہرست میں 11 ہزار سے زائد مشتبہ دہشت گردوں کے نام شامل ہیں تاہم برطانیہ نے ملک میں داخل ہونیوالے یا گرفتار افراد کا موازنہ کبھی اس فہرست سے نہیں کیا جب تک برطانوی حکومت پاسپورٹ ،نام اور تصویر سے متعلق گلوبل ڈیٹا بیس سے مدد نہیں لیتی شہریوں کی زندگیاں خطرات میں گھری رہیں گی۔ بات یہیں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھی مگر پورے برطانیہ میں دہشت گردی کے جراثیم اور سیلز اتنی تیزی سے پھیل رہے ہیں کہ ان کی نشاندہی والا ایم آئی فائیو کا ایک سکیورٹی میپ اپنی حدود سے بھی باہر جا چکا ہے۔ نیوز آف دی ورلڈ کی رپورٹ کے مطابق اس صورتحال میں تشکیل دیے گئے تازہ ترین نقشے میں مزید تین علاقوں اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کا اضافہ کر دیا گیا ہے اس نقشے میں ایسے 219مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں دہشت گردی کے مبینہ سیل موجود ہیں اور گزشتہ ایک سال میں ان سیلز کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے اورنہ صرف یہ بلکہ دہشت گردی کے سیلز سے متعلق ایم آئی فائیو کے نقشے پر موجود سرخ نشانات میں یکے بعد دیگرے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ برطانیہ ان تمام سیلز کی بیک وقت نگرانی نہیں کر سکتا اور جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ ویسٹ مڈ لینڈ کا علاقہ انتہا پسندوں کا سب سے بڑا ’’ہاٹ سپاٹ‘‘ بنا ہوا ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق 80 سے زائد ٹیررسٹ سیل کام کر رہے ہیں جبکہ لندن میں ایسے قریباً35 مشتبہ گروپ سرگرم ہیں۔ میرے حساب سے یہ وہ تعداد ہے جس کی جدید جرائم کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایم آئی فائیو کے سابق چیف ڈیم ایلزا بلر نے سنڈے ٹیلی گراف کو بتایا تھا کہ برطانیہ دہشت گردی کے بڑے منصوبوں کا گڑھ بن چکا ہے اور اب اسے ایک بے مثال اور اعلیٰ پیمانے کی سفاکیت پر مبنی دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے برطانیہ کے گریٹ جاسوسی ادارے کی سربراہ نے مزید کہا ہے کہ مستقبل میں ایک خوفناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جسکے نتیجے میں دہشت گرد اس ملک میں کبھی بھی، کہیں بھی اور کیسے بھی کیمیاوی اور حیاتیاتی تابکاری حتیٰ کہ نیوکلیائی حملہ بھی کر سکتے ہیں اس سابق عظیم ’’جاسوسن‘‘ کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے ٹین ایجرمسلمانوں میں بنیاد پرستی اور انتہا پسندی تشویش ناک طور پر بڑھ رہی ہے جو آگے چل کر دہشت گردی کی صورت اختیار کر لے گی انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ ان رویوں اور اسباب کا تدارک کرنے کی کوشش کرے۔ اب ایک اطلاع کے مطابق دہشت گردی کو شکست دینے کے سلسلے میں نئے اقدامات کے تحت برطانیہ کے مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ سٹیزن کلاسز میں حصہ لیں انتہا پسندوں کو عوامی مجرم قرار دے کر ان کی مذمت کریں اس سلسلے میں برطانوی حکومت نے براہ راست اپنی کابینہ کے سامنے تجاویزات پیش کیں انہوں نے ’’ہارٹس اینڈ مائنڈز‘‘ نامی کمپین کی تفصیلات بتاتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اعتدال پسند مسلم تنظیموں کو اضافی فنڈ اور وسائل مہیا کیے جائیں گے تاکہ وہ ان انتہا پسندوں کا راستہ روک سکیں جو نوجوانوں کے ذہن تبدیل (برین واش) کرنا چاہتے ہیں۔ سٹیزن کلاسز میں برطانوی اقدار کی تعلیم دی جاتی ہے اور یہ کلاسز اب قومی نصاب کا حصہ ہیں۔ کالم کے اختتام سے پہلے میں برطانوی سکیورٹی منسٹر کی یہ بات آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے جملے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’جب انہوں نے یہ جملہ سنا تو انہیں اس سے شدید نفرت پیدا ہوئی، یہ شاید امریکہ سے ٹرمپ کے ساتھ آیا ہے اور مکمل طور پر غلط جملہ ہے‘‘۔

میرے حساب سے صرف یہی غلط جملہ امریکہ سے نہیں آیا بہت سی غلط چیزیں امریکہ سے آئی ہیں وہ کیا ہیں؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچیے.....

ہر رہ گزر پر شمع جلانا ہے میرا کام

تیور ہیں کیا ہوا کے یہ میں دیکھتا نہیں

تازہ ترین