• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے فکرے دھن دولت والے
یہ آخر کیوں خوش رہتے ہیں
ان کا سکھ آپس میں بانٹیں
یہ بھی آخر ہم جیسے ہیں
فیض احمد فیض کے مندرجہ بالا اشعار لوڈ شیڈنگ کے طویل دورانئے اور سی این جی کی طویل قطاریں دیکھ کر بے ساختہ یاد آگئے۔ کالج کے دنوں میں مجھے ساحر، فیض اور حبیب جالب کے بے شمار اشعار یاد تھے مگر اب وقت کے ساتھ ساتھ یادوں کے سائے بھی لمبے ہورہے ہیں اور بہت کچھ بھولنے کو جی چاہتا ہے مگرکیا کروں میری یادداشت ہی بہت تیز ہے اور کچھ بھلانے نہیں دیتی۔ گزشتہ سال انتخابات سے قبل یہی اپریل کا مہینہ تھا۔ یہی رہنما تھے۔ کیا پرجوش تقریریں تھیں۔ سینے پر ہاتھ مار مارکر بڑے بڑے دعوے کئے جاتے تھے۔ کوئی مائیک کو پھینک کر ذوالفقار علی بھٹو کا ایکشن ری پلے کرتا تھا اور کوئی جھوٹی سچی قسمیں کھاکرعوام کو سہانے خواب دکھاتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن نے لیڈروں کے دن پھیر دئیے بقول حبیب جالب دن پھرے ہیں فقظ وزیروں کے یہ سلسلہ نہ جانے کب سے چل رہا ہے اور یونہی چلتا رہے گا۔ اب سونامی نے 11؍مئی الیکشن کے دن کی سالگرہ والے دن ڈی چوک میں جلسے کا اعلان کیا ہے۔ اگر تو یہ صرف جلسہ ہے تو پھر تو کوئی بات نہ بنی۔ اور اگر ایجنڈا جلسے سے کچھ آگے ہے تو شاید عوام کی دلچسپی بڑھ جائے۔ اب لوگ جلسوں میں نہیں جانا چاہتے۔ لوگ کچھ بڑھ کر مانگ رہے ہیں۔
غربت، بے روزگاری، مسلسل طویل لوڈ شیڈنگ وہ عناصر ہیں جن سے جاگتا ہے مسلمان! اب مسلمان پھر تبدیلی مانگ رہا ہے۔ وہ جو الیکشن کے بعد تبدیلی کا خواہاں تھا، جس نے پیپلزپارٹی کو اقتدار سے صرف اس لئے علیحدہ کیا تھا کہ وہ اپنی تمام تر مصیبتوں، ناکامیوں اور مایوسیوں کا ذمہ دار پیپلزپارٹی کو ٹھہراتا تھا۔ آج وہ ووٹر سوچ میں مبتلا ہے اور سوچ رہا ہے کہ پیپلزپارٹی میں کیا برائی تھی۔ یہ تو اس سے بھی بڑھ کر نکلے! عوام بے چارے جائیں تو جائیں کہاں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس وقت لوہا گرم ہے۔ عوام کو صرف ایک عدد لیڈر کی تلاش ہے جو ان کے دکھوں کا مداوا کرے عوام تو بقول ساحر لدھیانوی۔
ادھر بھی خاک اڑی ہے ادھر بھی خاک اڑی
جہاں جہاں سے بہاروں کے کارواں نکلے
اس وقت ایک صحیح ایماندار لیڈر کی سخت ضرورت ہے جوکہ عوام کے اس سیلاب کو جو سڑکوں پر نکلنے والا ہے صحیح سمت میں لے جائے اور پھر عوام کے دن پھر جائیں۔ ابھی تک تو صرف پروٹوکول لینے والے لیڈر عوام پر مسلط ہیں جو اپنے کاروبار اور وسائل میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی سے ہمکنار ہیں۔ بڑے شہروں میں بے روزگاری اپنے عروج پر ہے، دیہاتوں میں غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور کھلیانوں میں بھوک اُگ رہی ہے۔ حکومت بڑے بڑے قرضے حاصل کرکے بڑے بڑے منصوبوں کا اخبارات میں اعلان کررہی ہے۔ من پسند لوگوں کو اعلٰی اعلٰی عہدے بانٹے جارہے ہیں۔ کراچی میں ہر روز 8 سے 10لاشوں کا تحفہ ملتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے اپنے اسی کالم میں گزشتہ سال انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا کہ خیابان سحر پر 28سے تیس اسٹریٹ کے درمیان چند نئے ریسٹورنٹ کھلے ہیں جن میں نوجوانوں کی ٹولیاں ویگنوں میں اپنے مسلح گارڈوں کے ساتھ آتی ہیں اور پوری روڈ پرائیویٹ مسلح گارڈوں سے بھری ہوتی ہے۔ میں نے کسی ناخوشگوار واقعہ کی پیش گوئی کی تھی۔
اس کے چند دنوں کے بعد 30نمبر اسٹریٹ کے کونے پر ایک ریسٹورنٹ کے سامنے ایک 16سالہ لڑکے کے گارڈ نے دوسرے 17یا 18سالہ لڑکے کے سینے میں گولی مار دی اور بھاگ گیا۔ پھر ایک دوسرا واقعہ ہوا اور کل کے اخبارات میں تیسرے واقعے کا ذکر ہے۔ اگرچہ یہ واقعہ ریسٹورنٹ پر نہیں بلکہ گھر پر ہوا ہے اور Aلیول کا طالب علم اس میں نشانہ بنا ہے۔ مگر اس واقعہ میں بھی مسلح گارڈوں اور اسلحے کا ذکر ہے۔ گویا گارڈ اور اسلحہ کلچر سب جرائم کی جڑ بن رہا ہے اور لوگ بڑی تعداد میں مسلح گارڈ رکھ کر ایک طرح سے اپنی پرائیویٹ آرمی بنالیتے ہیں اور پھر گارڈوں کے بل بوتے پر من مانی کارروائیاں کرتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی متنبہ کیا تھا مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور ابھی تک تین اموات ہوگئیں میں آئندہ بھی ایسے واقعات سے خوفزدہ ہوں اور ان حالات میں جب گارڈوں کے پاس اسلحہ اور 16 سے 18سال کے بچوں کے پاس کمانڈ ہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ان تمام معاملات کو روکنے کے لئے ملک میں قانون موجود ہیں مگر جو لوگ ان کاموں میں ملوث ہیں کہ قانون سے بالاتر ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی کاروں کی نمبر پلیٹ پیتل اور دوسری دھاتوں سے بنوا کر پرکار پر لگاتے ہیں۔ کار کے تمام شیشے سیاہ کردیتے ہیں اور نافذ قوانین کو توڑ کر فرحت محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک دو افراد نہیں بلکہ پورا ایک طبقہ ہے اور یہی حالات طبقاتی جنگ کو جنم دیتے ہیں اور ملکوں میں انقلاب آتے ہیں۔ ہماری قوم انقلاب کے دہانے پر کھڑی ہے۔ بالکل تیار ہے مگر ایک انقلابی لیڈر کی ضرورت ہے۔ موجودہ لیڈر سب آزمائے ہوئے ہیں۔ نیا لیڈر درکار ہے۔ موجودہ لیڈروں کی ضرورت ماحول کو گرم رکھنے کے لئے ہے۔ یہ ماحول گرم کریں گے۔ فضا بنائیں گے۔ لوگوں میں جوش و خروش پیدا کریں گے اور پھر اس اثنا میں اللہ کا کوئی بندہ نازل ہوجائے گا جوکہ کارواں کا راستہ انقلاب کی طرف موڑ دے گا۔ یہ کب ہوگا؟ وقت کا تعین نہیں کیا جاسکتا مگر مسئلے کا واحد حل یہی ہے۔ آزمائے ہوئوں کو آزمانا بے کار ہے۔
ان لوگوں نے اپنی جیبیں باری باری بھرلی ہیں۔ اور ابھی مزید مواقع کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اس وقت ملک میں انارکی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا بے لگام ہے اور ایک دوسرے پر الزامات کی بارش میں مصروف ہے۔ پیمرا کے قوانین کی کسی کو پروا نہیں۔ خود پیمرا کو بھی پروا نہیں۔ میرے کالم کو پڑھ کر آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ شاید میں مایوسی کا شکار ہوگیا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں ہمیشہ پرامید رہتا ہوں اور ابھی بھی مجھے اپنی قوم کی صلاحیتوں پر پورا یقین ہے۔ ہمارے اندر وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہیں۔ صرف قیادت کا فقدان ہے جوکہ کسی بھی وقت پورا ہوجائے گا۔ قوم کی ترقی اور سلامتی کے لئے بہت ساری دعائوں کے ساتھ آخر میں غالب کا شعر پیش کرتا ہوں۔
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں، یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
مجھ کو وہ دو، کہ جسے کھاکے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی، آب بقا اور سہی
تازہ ترین