(گزشتہ سے پیوستہ)
جو لوگ ڈاکٹر سلیم اختر کو ذاتی طور پر نہیں جانتے بلکہ انہیں صرف ان کی تحریروں کے حوالے سے جانتے ہیں وہ میری یہ تحریر پڑھ کر بہت حیران ہوں گے کیونکہ جب میں پہلی دفعہ ڈاکٹر صاحب سے ملاتو خاصاحیران ہوا۔ حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ میں نے ان کی کتاب ’’عورت جنس اور جذبات‘‘ کچھ افسانے اور کچھ تحلیل نفس والے مضامین پڑھ رکھے تھے، سو میں ڈاکٹر صاحب کی بھولی بھالی شکل دیکھتا تھا اور سوچتا تھا کہ یہ سب کچھ واقعی اس شخص نے خود لکھا ہے؟ یہ حیرانی اس وقت اور بڑھی جب ڈاکٹرصاحب سے واقفیت دوستی میںبدل گئی اور پتہ چلا کہ موصوف عورت جنس اور جذبات کے حوالے سے جو کچھ لکھتے ہیں بس اپنے علم مشاہد ے اور زور قلم کے بل بوتے پر لکھتے ہیں ورنہ عملی طور پر اتنے بھلے مانس ہیں کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنی جو ریپوٹیشن ایک طویل عرصے کی ریاضت کے بعد بنائی تھی میں اسے بیٹھے بٹھائے ’’خراب‘‘ کر رہا ہوں، مگر کیا کیا جائے۔ اصل صورت حال یہی ہے کہ جس طرح ریاض خیر آبادی مرحوم نے ساری عمر شراب کی شکل نہیں دیکھی مگر ساری شاعری شراب کے حوالے سے کی، کچھ یہی حال ہمارے سلیم اختر کا بھی تھا۔ موصوف کم از کم گزشتہ ربع صدی سے اتنے سلیم الطبع ہوگئے کہ آئندہ کیلئے بھی ان سے کوئی توقع قائم نہیں کی جاسکتی تھی اور یوں ہم انہیں باآسانی نقادوں اور افسانہ نگاروں کا ریاض خیر آبادی کہہ سکتے ہیں۔ ان سطور میں میں نے ڈاکٹر سلیم اختر کی شرافت اور بھلے مانسی کا اتنا ڈھنڈورا پیٹ دیا ہے کہ خود گھبرا گیا ہوں حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ وہ اپنی حدود و قیود سے بخوبی واقف تھے اور جہاں تک ان کی حدود کا تعلق ہے وہ وہاں ختم ہو جاتی تھیں جہاں سے ’’حدود‘‘ شروع ہوتی ہیں۔
خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی پہلے میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ میں اپنے دوستوں میں ڈاکٹر صاحب سے زیادہ سگھڑ شخص اور کوئی نہیں دیکھ پایا۔ مجال ہے ہوٹل بازی پر وقت اور پیسہ ضائع کریں اسکی بجائے وہ اپنا وقت گھر پر گزارتے چنانچہ اس طرح جو وقت بچتا اس سے گاہے گاہے دوستوں کی پرتکلف دعوت اپنے گھر پر کرتے حالانکہ اگر وہ چاہتے تو یہ ترتیب الٹ بھی ہو سکتی تھی۔ یعنی جو وقت بچے اس میں پیسہ کمایا جائے اور جو پیسہ کماتے اسے بعض دوسرے ادیبوں کی طرح ادب میں نام کمانے کیلئے انویسٹ کر سکتے تھے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ مشورہ خاصا بعد از وقت تھا کیونکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ سات برس کی عمر تک بچے کی شخصیت مکمل ہو جاتی ہے اسکے بعد ساری عمر اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی، بس چھوٹی چھوٹی آئینی اور غیر آئینی ترمیمیں ہوتی رہتی ہیں چنانچہ میرے خیال میں سلیم اختر کو بدلنے کی کوشش کار لایعنی تھا۔ کیونکہ سلیم اختر کی شکل میں جو چیز بن گئی وہ اتفاق سے اچھی چیز ہے لہٰذا اسے جوں کا توں رہنے دینا چاہیے ورنہ ترمیمات سے اسکی شکل بھی 1973ء کے آئین جیسی ہو سکتی تھی۔
سلیم اختر کی ایک خصوصی صفت تو میں نےابھی تک بیان ہی نہیں کی اور وہ دوستوں سے ان کی محبت ہے وہ دوستوں کو ان کی خامیوں سمیت قبول کرتے بلکہ میرے جیسے دوستوں کی موجودگی میں کہا جا سکتا تھا کہ وہ خامیوں کو دوستوں سمیت قبول کرتے تھے ان کی دوستی کا صرف ایک معیار تھا کہ ’’مدمقابل‘‘ پرُ خلوص ہونا چاہیے۔ چنانچہ جب انہیں اس کے خلوص کا یقین ہو جاتا تو پھر اس کے سات خون معاف کردیتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ذاتی دشمنی میں نظریات کو بھی آڑے نہیں آنے دیتے اور یوں احمد ندیم قاسمی سے لے کر ڈاکٹر وحید قریشی تک انکے دوستوں یا یوںکہہ لیں کہ بزرگ دوستوں میں شامل تھے۔ سلیم اختر کی دوستی کا دائرہ جتنا وسیع تھا مجھے یقین ہے کہ وہ اگر کبھی الیکشن میں کھڑے ہوتے تو ان کے مخالف کی ضمانت ضبط ہو جاتی۔ ویسے سلیم اختر کبھی الیکشن میں کھڑے ہوتے تو انہیں اپنا انتخابی نشان سائیکل رکھنا چاہیے تھا کیونکہ لاہور میں سائیکلوں والے ادیب بس دو چار ہی رہ گئے تھے اور ان میں سے سلیم اختر اور سائیکل تو لازم و ملزوم تھے بلکہ صبح سے شام تک وہ جتنی سائیکل چلاتے اس کے مطابق سلیم اختر اور سائیکل کو لازم و ملزوم نہیں بلکہ ظالم و مظلوم قرار دیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اگر ڈاکٹر صاحب ہماری ان چکنی چپڑی باتوں میں آ جاتے یعنی الیکشن میں کھڑے ہونے کا واقعی پروگرام بنا لیتے تو ان سے ہماری ایک گزارش ہوتی کہ وہ لاہور سے اسلام آباد تک دو چار دفعہ سائیکل پر آئیں جائیں اور پھر ہمیں حتمی طور پر بتائیں کہ الیکشن واقعی ہو رہے ہیں کہ نہیں؟ دوستوں سے سلیم اختر کی محبت کے حوالے سے ایک بات بتانے کی یہ بھی تھی کہ آج کے دور میں ایسے شخص کو منافق کہا جاتا ہے جو ہر ایک کا دوست ہو۔ چنانچہ سلیم اختر کو یہ الزام گوارا نہیں تھا لہٰذا انہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی صورت میں اپنا ایک دشمن ڈھونڈا اور یہ دشمنی بھی کیا وضع داری سے نبھائی، مجال ہے پائے استقلال میں ذرا سی بھی لغزش آئی ہو اور یوں ہمارے نزدیک ان کی ادھوری شخصیت مکمل ہو گئی۔
سلیم اختر کے دوستوں اور دشمنوں کا ذکر چھڑا ہے تو یہاں ڈاکٹر طاہر تونسوی مرحوم کا ذکر ناگزیر ہو گیا ہے۔ طاہر تونسوی سلیم اختر کا شاگرد عزیز تھا اور یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ استاد اور شاگرد دونوں ایک دوسرے کو اون کرتے تھے ورنہ فی زمانہ استاد اور شاگرد مارکہ نلکی کے علاوہ استاد اور شاگرد میں اتنا قریبی رشتہ کہاں دیکھنے میں آتا ہے۔ طاہر تونسوی اپنے استاد سے ملنے کیلئے ملتان سے چل کر لاہور آتا اور اسکا سانس جس طرح پھولا ہوتا لگتا تھا پیدل چل کر آیا ہو اور پھر وہ جتنے دن بھی لاہور میں قیام پذیر ہوتا اپنے استاد کی خدمت میں مسلسل و متواتر حاضر رہتا کہ وہ سلیم اختر کا شاگرد بھی، دوست بھی اوربیٹے کی طرح بھی تھا۔ یہاں ’’بھائی‘‘ کا لفظ میں نے دانستہ نہیں لکھا کیونکہ ایک دفعہ روس کے ایک بڑے لیڈر نے چیکو سلواکیہ کے ایک لیڈر سے بہت پیار بھرے انداز میں پوچھا کہ تم روسیوں کو اپنا دوست سمجھتے ہو کہ بھائی چیک لیڈر نے جواب دیا کہ روسی ہمارے بھائی ہیں کیونکہ دوست تو انسان اپنی مرضی سے بناتا ہے۔ بہرحال طاہر تونسوی بھی سادہ لوحی کی حد تک مخلص آدمی تھا اور مجھے استاد اور شاگرد میں اگر کوئی قدر مشترکہ نظر آتی ہے تو وہ یہی خلوص تھا۔ (جاری ہے)