یہ سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا۔ دنیا کمیونزم اور کیپٹلزم کے فلسفوں کی گتھیوں میں الجھتی ہوئی دو واضح اور بڑے بلاکوں میں تقسیم ہو چکی تھی ۔ ویت نام کی جنگ جاری تھی اور اسکے ختم ہونے کا راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ امریکہ کے سب سے بڑے حریف سوویت یونین اور چین تھےاور گزشتہ ۲۵ سال سے امریکہ اور ان کے درمیان رابطہ منقطع تھا۔ جنوری ۱۹۶۹میں رچرڈ نکسن امریکہ کے ۳۷ ویں صدر بنے تو ان کی پہلی ترجیح روس اور چین کے ساتھ روابط اور تعلقات استوار کرنا تھا لیکن بظاہر کوئی راستہ نہ تھا۔نکسن کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر تھے۔ وہ جولائی ۱۹۷۱ میں پاکستان آے تو انہوں نے پاکستانی حکام سے درخواست کی کہ چین اور امریکہ کے درمیان برف پگھلانے میں مدد فراہم کریں۔ پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا اور یوں پہلی دفعہ امریکی وزیر خارجہ پاکستانی حکومت کی سفارتی مدد سے چین کے دورہ پر گئے۔ یوں ۱۹۷۲ میں رچرڈ نکسن کے چین کے دورہ کی راہ ہموار ہو گئی اور اسی دورے کے دوران صدر نکسن نے بیان دیا کہ ’آج دنیا ایک نئےدور میں داخل ہونے جا رہی ہے‘۔پاکستان اور امریکہ کےتعلقات کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں اور امریکہ اور چین کے درمیان روایتی مخاصمت کا تجزیہ کرنیوالوں کو تاریخ کے اس باب کو ہر گز فراموش نہیں کر نا چاہئے کہ اگر ۱۹۷۱میں پاکستان دونوں ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے تو آج کیوں نہیں؟۔ اگر ایک طرف پاکستان اور چین آپس میں گہرے معاشی اور اسٹرٹیجک مفادات میں شراکت دار ہیں تو دوسری طرف پاکستان ایک عرصہ تک امریکہ کیلئے افغانستان جنگ کے دوران اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا تک قابل اعتماد اسٹیک ہولڈر رہا ہے۔ جغرافیائی طور پر خطے کے ایک اہم ملک کی حیثیت سے پاکستان، امریکہ کیلئے آج بھی اہم پارٹنر کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاکے بعد سے آج تک دونوں ممالک کے درمیان بڑی سطح کی Engagement نہیں ہو سکی۔ یوں محسوس ہو تا ہے جیسے جوبائیڈن اور اب صدر ٹرمپ کی صدارت کے آغاز تک پاکستان امریکہ کیلئے وہ کشش اور اہمیت کھو چکا ہے جو افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی تک موجود تھی۔ ہم بائیڈن کے عہدِ صدارت میں ایک ٹیلیفون کال اور ملاقات کی حسرت لیے بیٹھے رہے۔ صدر ٹرمپ نے بھی ابھی تک پاکستان کی طرف توجہ نہیں دی البتہ مودی کو نہ صرف سرکاری دورہ کی دعوت دیکرامریکہ بلایا بلکہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے رستے ہموار کئے۔ اس دورے کے بعد پاک امریکہ تعلقات پر نظر رکھنے والوں کیلئے یہ سوال پوری شدت کے ساتھ سر اٹھا رہا ہے کہ کیا پاکستان امریکہ کیلئے غیر اہم ہو چکا ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلقات مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ تعلقات کبھی معاشی، کبھی تجارتی، کبھی اسٹرٹیجک اور کبھی Transactional ہوتے ہیں۔ ایک ملک دوسرے کو کچھ دیتا ہے تو اسکے بدلے میں وہ کچھ حاصل کرنے کی توقع بھی کرتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات زیادہ تر کاروباری نوعیت کے رہے ہیں۔ ہم اس سے فوجی اور معاشی امداد لیتے رہے اور اسکے بدلے میں اپنی سروسز فراہم کرتے رہے۔ ایسے تعلقات دیر پا نہیں ہوتے۔ جب مفاد پورا ہو جا تا ہے تو تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سوویت یونین کے افغانستان پر قبضہ کے بعد پہلی افغان جنگ ہو یا نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ، دونوں جنگوں کے خاتمہ پر مفادات کا خاتمہ ہوا اور تعلقات کمزور پڑ گئے۔کیا اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان خطہ میں امریکہ کیلئے غیر اہم ہو گیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اچھی اور منجھی ہوئی سفارتکاری سے اپنے آپ کو Relevant بنایا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی اور علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والے ہمہ وقت ایسے مواقع تلاش کرتے ہیں جنکی مدد سے ملک کو عالمی سطح پر Relevant بنایا جا سکے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان ایسا کیا کرے جس سے وہ خطے میں اپنے کردار کے حوالے سے چین اور امریکہ دونوں کیلئے Relevant بنا رہے اور دونوں کے مفادات کے تحفظ میں مدد گار ثابت ہو۔
اس وقت پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے حوالے سے کوئی بڑی Engagement نہیں ہے لیکن کوئی بڑا کرائسس بھی نہیں۔ ایسی صورت حال میںمواقع ڈھونڈنے چاہئیں اور اپنے آپ کو اسطرح Place and Position کرنا چاہئے کہ عالمی منظر نامہ پر Relevant بنا جا سکے۔ امریکہ چین کی معاشی برتری اور قوت پر سخت پریشان ہے اور ہمہ وقت اسکو نقصان پہنچانے کی حکمت عملیاں ترتیب دینے میں مصروف رہتا ہے۔ پاکستان چین کا گہرا دوست ہے۔ چین کے پاکستان کے اندر سی پیک سمیت بہت اہم معاشی اور اسٹرٹیجک منصوبے جاری ہیں۔ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بھی معاشی اور دفاعی تعلقات ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کواسی طرح امریکہ اور چین کے درمیان معاملات میں پل کا کردار ادا کرنے کی حکمت عملی بنانا ہوگی جس طرح اس نے ۱۹۷۱ء میں دونو ں ممالک کے درمیان موجود برف کو پگھلانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا لیکن اس کیلئے موثر سفارتکاری کرنا ہوگی۔ اسلام آباد اور واشنگٹن ڈی سی کے درمیان اعلیٰ سطح کی Engagements کرنی پڑیں گی۔ پاکستان کے اس بڑے کردار کو اجاگر کرنےکیلئے مختلف سیشنز کا اہتمام کرنا ہو گا۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ سینئر اور منجھے ہوئے سفارتکار ہیں۔ عالمی سیاسی منظرنامہ پر ان کی نظر بھی گہری ہے۔ وہ اس وژن کے خدوخال تیار کرنے اور اس بیانیے کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔