• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر شاہد خاقان عباسی کے ن لیگ کا حصہ رہنے کے حوالے سے پچھتاوےکےبیانات گردش میںہیں۔جن پر ن لیگ سے جڑے لوگوں کے علاوہ ہر سیاسی بصیرت رکھنے والے نے حیرت اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں ن لیگ انسانوں پر مشتمل جماعت ہے اسلئے اِس پر کئی حوالوں سے تنقید ہو سکتی ہے اور وفاقی جماعت ہونے کے باعث پاکستان کا ہر فرد تنقید کا استحقاق رکھتا ہے مگر شاہد خاقان عباسی نہیں ، اس لئے کہ جس فرد کو وزیراعظم جیسا سب سے بڑا عہدہ عنایت کردیا گیاہو وہ تو تمام عمر شکریہ ادا کرتا رہے تو بھی کم ہے۔

ہم جیسے لوگ جو مشکل وقت میں ساتھ دینے والوں کے احسان کو سانس کے ساتھ باندھ کر دعاؤں میں شامل رکھتے ہیں ،کیلئے شاہد خاقان جیسی مثالیں مایوس کن ہوتی ہیں۔ اچھا مشورہ دینے اور ڈھارس بندھانے والے کے سامنے آنکھیں ممنونیت کے احساس میں ڈھلی رہتی ہیں ، مگر ایک شخص جو آزادانہ حیثیت میں اپنی سیٹ تک نہ جیت پائے وہ غیروں سے مل کرکھلم کھلا تمسخرانہ گفتگو کرے لیکن اس مہربانی ، عنایت اور اعزاز کا ذکر تک نہ کرے جو قطعاً اْن کا استحقاق نہیں تھا ، سینکڑوں ان جیسے اور ان سے بہتر لوگوں میں سے اْن پر اعتماد کر کے انھیں ایسی عزت دی گئی کہ تاریخ میں اندراج ہو گیا، پاکستان کاسب سے بڑا عہدہ رکھنے والے چند لوگوں کی فہرست والے فریم میں تصویر لگ گئی، پھر بھی آج انھیں ن لیگ میں رہنے پر پچھتاواہے۔

ایک جماعت میں مختلف سوچ کے حامل لوگ ہونے کی وجہ سے مختلف معاملات ، تقرریوں اور دیگر فیصلوں پر آپسی اختلاف، شکوے شکایات اور وقتی ناراضگیاں ہونا فطری عمل ہے، جبکہ جماعت کے کسی بھی فرد کا خود کو عقلِ کْل سمجھ کر قیادت اور جماعت کو اپنی رائے کے مطابق ڈھالنا بالکل غیر جمہوری اور آمرانہ انداز ہے، ہر معاملے میں ترجیح کے خواہشمند جماعت سے کٹ کر چار دن خبروں میں رہنے کے بعد ہمیشہ کے لئے معدوم ہو جاتے ہیں۔

چاہئے تو یہ تھا کہ شاہد خاقان عباسی ساری عمر وزیراعظم کے اعزاز کو وقار کا شملہ بنا کر ساتھ لئے پھرتے اور پارٹی کے لئے بے لوث خدمات سر انجام دیتے ،مگر انھوں نے اْلٹا وطیرہ اپنا کر سب کو حیران کر دیا ہے ، مجھے یقین ہے اْن کا بیان پڑھ کر سب سے زیادہ حیرانی اور پچھتاوے کا احساس تو میاں نواز شریف کوہوا ہوگا کہ انہوں نے اْس وقت شاہد خاقان عباسی کو اس شہباز شریف پر ترجیح دی ، جو ہر لمحہ ان کے حکم کی تابعداری اور رہنمائی کو مقدم سمجھتا ہے ، جو اخلاص کا پیکر ہے ، جماعت کے ضابطوں کے آگے بھی سر جھکاتا ہے اور رشتوں کے دھاگوں کو بھی ٹوٹنے نہیں دیتا ، جس کی کارکردگی میں سینکڑوں تعمیری منصوبے اور کاوشیں ہیں۔جو ہر تقریر میں ہر کامیابی کا کریڈٹ نواز شریف کو دیتا اور اْن کی رہنمائی کے مطابق آگے بڑھنے کا اقرار کرتا ہے۔

شاید خاقان جیسی مثالیں سیاسی جماعتوں کے قائدین کو خاندان تک محدود کردیتی ہیں ، تاہم اس بیان پر ہنسی ہی آسکتی تھی کیونکہ اپنی عظمت کا جو نقشہ انہوں نے کھینچا ہے وہ حیران کن بھی ہے اور معصومانہ بھی کہ جب بھی نواز شریف بلائیں گے تو ضرور جاؤں گا۔ بھلا آپ کے ن لیگ کا حصہ ہونے پر اظہار شرمندگی کے بعد اب آپ سے معافی کے لئے ہی آپ کو بلایا جاسکتا ہے کہ ہم نے آپ کو پاکستان کا وزیراعظم بنوا کر غلطی کا ارتکاب کیا ہمیں معاف کردیں۔ہم آئندہ ایسی کوتاہی نہیں کریں گے۔تاہم شیخ رشید جس ن سے ش کے نکلنے کی پیشین گوئی کرتے رہتے تھے وہ شہباز شریف نہیں شاہد خاقان عباسی تھے ، چلیں شیخ صاحب کو واحد پیشین گوئی کا کریڈٹ تو رکھنے دیجئے،آج کل تنوروںپر سیاسی اور انقلابی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔رب کہتا ہے میری نعمتوں اور مہربانیوں کا شکر کرو ، رب کو شکریے کی حاجت نہیں مگر وہ ہماری تربیت کرتا ہے کہ ہم معاشرے میں تعاون کی فضا کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کریں، سماجی ،انسانی اور اخلاقی قدروں کو فروغ دیں، حرفِ تشکّر کی ادائیگی اور احساس ایک مثبت ترین رویہ ہے جو خیر کی آبیاری کرتا ہے۔

جس طرح سورج سے روشنی اور حرارت کی کرنیں پھوٹتی ہیں اسی طرح ہمارے رویوں سے خیر کی کرنیں اجاگر ہو کر ہماری سوچ کا انداز متعین کرتی ہیں۔ ہم محبت اور نفرت تک محدود ہیں جبکہ عزت احترام اور اعتماد کے سبب زندگیاں خوشگوار ہوتی اور نمو پاتی ہیں۔

تازہ ترین