• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ڈیپارچرلاؤنج میں داخل ہوا ہی چاہتا تھا لیکن اس نیم خواندہ سے نوجوان نے راستہ روک رکھا تھا۔ اس کے گھر والے اسے باری باری مل رہے تھے۔ میں خاصی بیزاری محسوس کرنے لگا۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ میری توجہ ان لوگوں پر مرکوز ہوگئی۔ ایک عورت نے جو ادھیڑ عمری کی بدولت اس لڑکے کی ماں لگ رہی تھی اس لڑکے کو گلے لگا کر چومنا اور زاروقطار رونا شروع کردیا۔ اس کا پیارا شاید پہلی دفعہ دور جا رہا تھا۔ میری بھی آنکھیں بھر آئیں۔ مجھے آگے جانے کی جلدی نہ رہی بلکہ میرا دل کر رہا تھا وہ ماں بیٹا اسی طرح اک دوجے سے لپٹے رہیں۔ اب وہ بوڑھی آنکھیں اس جوان اولاد کے درشن کو صرف ترسیں گی ہی۔ پیدا ئش سے پل پل ساتھ رہنے والا، اب برسوں بعد محض چند دن کی چھٹی پرآیا کرئیگا۔ کیا معلوم دوبارہ ملاقات ہوگی بھی یا نہیں کہ ہمارے بزرگ تو چل چلاؤ کی عمرمیں ہوتے ہیں۔وہ ماں رو رہی تھی، وہ بیٹا رو رہا تھا اورادھر میں رو رہا تھا۔ ہاں اتنا فرق تھا کہ ان کے آنسو باہر اورمیرے اندرگر رہے تھے۔

میں ابھی ان کے دکھ میں ہی آزردہ ہو رہا تھا کہ اس ماں کے ایک جملے نے ایک اوردبستان کھول دیا۔ وہ ایک ڈھائی تین سالہ بچی سے کہہ رہی تھی،’’ابے نوں مِل لے، او جا رہیا اے‘‘۔ جوان نے اسے اٹھا کر چومنا شروع کر دیا۔ وہ بچی مگربے نیاز تھی۔ پگلی کیا جانے کس نعمت سے محروم ہونے جا رہی تھی، کون ہوگا کہ جس کا انتظار کرے گی، کس کے آنے پر اس کی ٹانگوں سے لپٹے گی، فرمائشیں کرے گی، کون اپنی بساط بھراس کیلئے چیزیں لائے گا۔

میری نظروں نے اس کی بیوی بھی ڈھونڈ نکالی، گھرکے باقی افراد کی طرح سیدھی سادی۔ اس کی بے بسی مگر ناقابل دید تھی۔ دوسرے تو پھراس جوان کو لپٹ کر، چوم کر، جذبات کا اظہار کر پا رہے تھے، اس بی بی کو مگر معاشرتی اقدار نے باندھ رکھا تھا۔ وہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکتی تھی نہ اپنے سانسوں کے ساتھی سے لپٹ سکتی تھی۔ جدائی کا غم تو اس قدر زیادہ تھا کہ کلیجہ پھاڑ کر باہر آجاتا لیکن دوسرں کی موجودگی میں محض آنسو بن کر بہہ رہا تھا۔ اب وہ کس کے انتظار میں صبح سے شام کرے گی؟ کس کے نام کا سنگھارکرئےگی؟ سرخی لگائے گی، بال سنوارے گی تو کس سے ستائش چاہے گی؟

باپ کو پہچاننا بھی مشکل نہ تھا۔ ایک اُدھیڑعمر کا باریش شخص، ساری عمر اپنے آپ کو بیوی بچوں کے سامنے ایک مضبوط شخص کے طور پر پیش کرتا رہا ہوگا، لیکن آج اس کے آنسو بھی آنکھوں سے اُبلتے، داڑھی کو تر کرتے، چھاتی میں گم ہو رہے تھے۔ اس بےچارے نے تو ویسے بھی نہ چاہتے ہوئے، اور کچھ نہ کچھ بیچ کر، اس تجویز کے آگے سر تسلیم خم کیا ہوگا کہ مُنڈے کو باہر چلے جانا چاہیے۔ باپ تھا، باپ پن سے باز نہ آیا، بیٹے کو نصیحت کرنے لگا ’’کاغذ سانبھ کے رکھیں‘‘ ۔

میرا غم یہ سوچ کر بھی دوچند ہوا جا رہا تھا کہ وہ لڑکا اعلیٰ تعلیم یا نوکری کے لیےتھوڑی بیرونِ ملک جا رہا تھا۔ اس کا حال حلیہ صاف چغلی کھارہا تھا کہ دن رات کی مزدوری اس کا مقدر ہوگی۔ اسے تیسرے درجے کا شہری بننا ہوگا، کفیلوں کی بدسلوکی کا سامنا کرنا ہوگا۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ترسنا ہوگا۔ اپنے پیاروں کو یادکر کے آنسو بہانا ہوں گے۔ سخت حالات میں رہنا ہوگا۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں اپنے جیسوںکے ساتھ ٹھُسنا ہوگا۔ خود کپڑے دھونے، کھانا پکانا اور دوسرے کام کرنا ہونگے۔ گھر کے کھانوں کو ترسنا ہوگا، سوچ سوچ کر ہی منہ میں ان کا ذائقہ محسوس کرنا ہوگا۔ پچھتانا ہوگا کہ روکھی سوکھی کھا لیتے لیکن اپنے گھر والوں کے ساتھ تو رہتے۔ ملک جیسا بھی ہے سر تو اٹھا کر چلتے تھے۔ ارادے باندھنا ہوں گے کہ گھر جاؤں گا تو یہ کھاؤں گا، وہ کھاؤں گا لیکن یہ سوچ سوچ ہی رہ جائے گی۔ جو پیسے جمع ہونگے وہ گھروالوں کو بھیج دے گا۔ اپنے لیے تھوڑے تھوڑے جوڑے گا بھی تو کئی سال لگ جائیں گے واپس آتے آتے۔کاش میرے وطن کے کسی نوجوان کو روزگار کی تلاش میں بیرون ملک نہ جانا پڑے۔ کاش کسی ماں سے اس کا لختِ جگر، کسی سہاگن سے اس کا ساتھی، کسی بچے سے سرکا سایہ نہ جدا ہو۔ کاش وطنِ عزیز کا دامن اس قدرکشادہ ہو جائے کہ اپنے سب جوانوں کو اس میں سمیٹ لے۔ کاش میرے ہم وطنوں کو دوسروں کی منڈیوں، کھیتوں، فیکٹریوں کا ایندھن نہ بننا پڑے۔ ہماری ماؤں نے بچوں کو اس لیے تو نہیں جنا تھا کہ وہ بڑھاپے میں انہیں چھوڑ کر سمندرپار دوسروں کی غلامی میں چلے جائیں!

اور پھر یہ ایک فرد کی کہانی تو ہے نہیں۔ ہزاروں گھرانے اس کرب سے روزانہ گزرتے ہوں گے۔ ہمارے جوان حالات سے تنگ آکر، اچھے دنوں کی تلاش میں باہر جانے کی ٹھان لیتے ہیں، لیکن جنت کی تلاش میں جہنم جا پہنچتے ہیں۔ کاش ہم سب لوگ عہد کر لیں کہ روکھی سوکھی کھا لیں گے، لیکن دیارِغیر جا کر خود کو اور اپنے پیاروں کو جدائی کے کرب سے آشنا نہیں کریں گے۔ لیکن شاید یہ ایک دیوانے کا خواب ہی ہے۔ جب پالنے کو بہت سے پیٹ ہوں اور وسائل محدود تو ایسے جذبات کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوا جا سکتا۔

آنسوؤں کی جھڑی میں وہ جوان اب ڈیپارچرلاؤنج میں داخل ہوگیا۔ ایئرپورٹ کے معاملات سے ناآشنا ہونے کے سبب وہ ویسے بھی پریشان تھا، اب مزید اجڑا اجڑا سا لگ رہا تھا۔ بورڈنگ پاس لینے کے بعد میں نے مڑ کر دیکھا۔ دور بہت دور، نم آنکھوں کے ساتھ اس کی ماں اب تک اسی جانب تک رہی تھی جہاں اس کا بیٹا اب ہجوم میں گم ہو چکا تھا۔

تازہ ترین